Wednesday, December 26, 2018

Djaal

دجال

دجال یہودیوں کی نسل سے ہوگا جس کا قد ٹھگنا ہو گا ،دونوں پاؤں ٹیڑھے ہو نگے ۔ جسم پر بالوں کی بھر مار ہوگی ،

رنگ سرخ یا گندمی ہو گا سر کے بال حبشیوں کی طرح ہونگے،ناک چونچ کی طرح ہو گی، بائیں آنکھ سے کانا ہو گا دائیں آنکھ میں انگور کے بقدر ناخنہ ہو گا۔ اس کے ماتھے پر ک، ا، ف، ر لکھا ہوگا، جسے ہر مسلمان بآسانی پڑھ سکے گا ،

اس کی آنکھ سوئی ہوگی مگر دل جاگتا رہے گا شروع میں وہ ایمان واصلاح کا دعویٰ لے کر اٹھے گا، لیکن جیسے ہی تھوڑے بہت متبعین میسر ہوں گے وہ نبوت اور پھر خدائی کا دعویٰ کرے گا۔ اس کی سواری بھی اتنی بڑی ہو گی کہ اسکے دونوں کانوں کا درمیانی فاصلہ ہی چالیس گز کاہو گا .

۔ایک قدم تاحد نگاہ مسافت کو طے کرلے گا دجال پکا جھوٹا اور اعلی درجہ کا شعبدے باز ہو گا، اس کے پاس غلوں کے ڈھیر اور پانی کی نہریں ہو نگی، زمین میں مدفون تمام خزانے باہر نکل کر شہد کی مکھیوں کی مانند اس کے ساتھ ہولیں گے ۔جو قبیلہ اس کی خدائی پر ایمان لائے گادجال اس پر بارش برسائے گا جس کی وجہ سے کھانے پینے کی چیزیں ابل پڑیں گے،درختوں پر پھل آجائیں گے،

کچھ لوگوں سے آکر کہے گا کہ اگر میں تمہارے ماں باپوں کو زندہ کر دوں تو تم کیا میری خدائی کا اقرار کرو گے؟ لوگ اثبات میں جواب دیں گے ۔اب دجال کے شیطان ان لوگوں کے ماں باپوں کی شکل لے کر نمودار ہوں گے نتیجتاً بہت سے افراد ایمان سے ہاتھ دھوبیٹھیں گے۔ اس کی رفتار آندھیوں سے زیادہ تیز اور بالوں کی طرح رواں ہو گی، وہ کرشموں اور شعبدہ بازیوں کو لے کر دنیا کے ہر ہر چپہ کو روندے گا، تمام دشمنانِ اسلام اور دنیا بھر کے یہودی امت مسلمہ کے بغض میں اس کی پشت پناہی کر رہے ہوں گے۔ وہ مکہ معظمہ میں گھسنا چاہے گا مگر فرشتوں کی پہراداری کی وجہ سے ادھر گھس نہ پائے گا اس لئے نامراد وذلیل ہو کر واپس مدینہ منورہ کا رخ کرے گا،

اس وقت مدینہ منورہ کے سات دروازے ہوں گے اور ہر دروازے پر فرشتوں کا پہرا ہو گا ۔ لہذا یہاں پر بھی منہ کی کھانی پڑے گی۔انہی دنوں مدینہ منورہ میں تین مرتبہ زلزلہ آئے گا جس سے گھبرا کر بہت سارے بے دین شہر سے نکل کر بھاگ نکلیں گے، باہر نکلتے ہیں دجال انہیں لقمہ تر کی طرح نگل لے گا ۔

آخر ایک بزرگ اس سے بحث و مناظرہ کے لئے نکلیں گے اورخاص اس کے لشکر میں پہنچ کر اس کی بابت دریافت کریں گے لوگوں کو اس کی باتیں شاق گزریں گی لہذا اس کے قتل کا فیصلہ کریں گے ،مگر چند افراد آڑے آکر یہ کہہ کر روک دیں گے کہ ہمارے خدا دجال کی ا
جازت کے بغیر اس کو قتل نہیں کیا جاسکتا ہے،

،چنانچہ اس بزرگ کو دجال کے دربار میں حاضر کیا جائے گا ۔جہاں پہنچ کر یہ بزرگ چلا اٹھے گا کہ میں نے پہچان لیا کہ تو ہی دجال ملعون ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تیرے ہی خروج کی خبر دی تھی۔دجال اس خبر کو سنتے ہی آپے سے باہر ہوجائے گا اوراس کو قتل کرنے کا فیصلہ کرے گا درباری فوراً اس کے دو ٹکڑے کردیں گے،

دجال اپنے حواریوں سے کہے گا کہ اب اگر میں اس کو دوبارہ زندہ کردو تو کیا تم کو میری خدائی کا پختہ یقین ہو جائے گا ۔یہ دجالی گروپ کہے گا کہ ہم تو پہلے ہی سے آپ کو خدا مانتے ہوئے آرہے ہیں، البتہ اس معجزہ سے ہمارے یقین میں اور اضافہ ہو جائے گا ۔

دجال اس بزرگ کے دونوں ٹکڑوں کو اکٹھا کر کے زندہ کرنے کی کوشش کرے گا ادھر وہ بزرگ بوجہ حکم الہی کھڑے ہو جائیں گے اور کہیں گے اب تو مجھے اور زیادہ یقین آگیا کہ تو ہی دجال ملعون ہے وہ جھنجھلا کر دوبارہ انہیں ذبح کرنا چاہے گا لیکن اب اسکی قدرت سلب کر لی جائے گی دجال شرمندہ ہوکر انہیں اپنی جہنم میں جھونک دے گا لیکن یہ آگ ان کے لئے ٹھنڈی اور گلزار بن جائے گی،

۔اس کے بعد وہ شام کا رخ کرے گا لیکن دمشق پہنچنے سے پہلے ہی حضرت مہدی علیہ السلام وہاں آچکے ہوں گے ۔دجال دنیا میں صرف چالیس دن رہے گا ایک دن ایک سال دوسرا ایک مہینہ اور تیسرا ایک ہفتہ کے برابر ہوگا بقیہ معمول کے مطابق ہوں گے،

امام مہدی علیہ السلام دمشق پہنچتے ہی زور وشور سے جنگ کی تیاری شروع کردیں گے لیکن صورتِ حال بظاہر دجال کے حق میں ہوگی،کیونکہ وہ اپنے مادی وافرادی طاقت کے بل پر پوری دنیا میںدھاک بٹھا چکا ہو گا اس لئے عسکری طاقت کے اعتبار سے تو اس کی شکست بظاہر مشکل ہو گی مگر اللہ کی تائید اور نصرت کا سب کو یقین ہوگا ۔

حضرت مہدی علیہ السلام اور تمام مسلمان اسی امید کے ساتھ دمشق میں دجال کے ساتھ جنگ کی تیاریوں میں ہوں گے ۔تمام مسلمان نمازوں کی ادائیگی دمشق کی قدیم شہرہ آفاق مسجد میں جامع اموی میں ادا کرتے ہوں گے ۔ ملی شیرازہ ،لشکر کی ترتیب اور یہودیوں کے خلاف صف بندی کو منظم کرنے کے ساتھ ساتھ مہدی علیہ السلام دمشق میں اس کو اپنی فوجی سرگرمیوں کا مرکز بنائیں گے۔ اور اس وقت یہی مقام ان کا ہیڈ کواٹر ہو گا۔امام مہدی علیہ السلام ایک دن نماز پڑھانے کے لئے مصلے کی طرف بڑھیں گے،تو عین اسی وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزو ل ہوگا،

نماز سے فارغ ہو کر لوگ دجال کے مقابلے کے لئے نکلیں گے دجال حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر ایسا گھلنے لگے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔ پھر
آگے بڑھ کر اس کو قتل کردیں گے اور حالت یہ ہوگی کہ شجر وحجر آواز لگائیں گے کہ اے روح اللہ میرے پیچھے یہودی چھپاہے ،چنانچہ وہ دجال کے چیلوں میں سے کسی کو بھی نہ چھوڑیں گے۔

پھر وہ صلیب کو توڑیں گے یعنی صلیب پرستی ختم کریں گے خنزیر کو قتل کر کے جنگ کا خاتمہ کریں گے اور اس کے بعد مال ودولت کی ایسی فراوانی ہوگی کہ اسے کوئی قبول نہ کرے گا اور لوگ ایسے دین دار ہو جائیں گے کہ ان کے نزدیک ایک سجدہ دنیا و مافیھا سے بہتر ہو گا ۔

(مسلم، ابن ماجہ، ابوداود، ترمذی، طبرانی، حاکم، احمد)

(یادرھے کہ فتنہ دجال سے آگاھی تمام انبیاءعلیھم السلام کی سنت ھے جبکہ آج یہ سنت مٹ چکی ھے
لھٰذااس سنت کوزندہ کرتےھوئے اس پوسٹ کوباربارپڑھیں اوردوسروں تک پہونچائیں )

Thursday, November 8, 2018

Talkh Hqiqt

تلخ حقیقت۔۔۔
گرلز پلیز غصہ نہیں کرنا۔۔
ﺟﺐ ﻋﻮﺭﺕ ﻣﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﻣﺮﺩ ﺍﭨﮭﺎﺗﺎ ﮨﮯ ۔ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺪﻓﯿﻦ ﯾﮧ ﮨﯽ ﻣﺮﺩ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺟﺐ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮨﯽ ﻣﺮﺩ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺎﻥ ﻣﯿﮟ آذﺍﻥ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺳﮑﻮ ﺑﺎﭖ ﮐﮯ ﺭﻭﭖ ﻣﯿﮟ ﺳﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﻟﮕﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﺭﻭﭖ ﻣﯿﮟ ﺗﺤﻔﻆ ﻓﺮﺍﮨﻢ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﮯ ﺭﻭﭖ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﮯ ﺭﻭﭖ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﺌﯿﮯ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻗﺪﻣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺟﻨﺖ ﺗﻼﺵ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺑﮩﺖ ہوﺱ ﮐﯽ ﻧﮕﺎﮦ ﺳﮯ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻧﮑﯽ ہوﺱ ﺍﺗﻨﯽ ﮐﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﺣﺎﺟﺮﮦ ﮐﯽ ﺳﻨﺖ ﮐﯽ ﭘﯿﺮﻭﯼ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﻭﺭ ﺻﻔﺎ ﻭ ﻣﺮﻭﮦ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺳﻌﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺳﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﻟﺌﯿﮯ ﺳﻨﺪﮪ ﻓﺘﺢ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﮯ ﻟﺌﯿﮯ ﺍﻧﺪﻟﺲ ﻓﺘﺢ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻣﻘﺘﻮﻟﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ 80 ﻓﯿﺼﺪ ﻋﻮﺭﺗﻮﮞ ﮐﯽ ﻋﺼﻤﺖ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﻣﯿﮟ ﻗﺘﻞ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻣﻮﺕ ﮐﯽ ﻧﯿﻨﺪ ﺳﻮﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺳﭻ ﮐﮩﺎ ﺁﭖ ﻧﮯ ہوس ﮐﮯ ﭘﺠﺎﺭﯼ ﮨﯿﮟ ۔ ﻭﮦ ﭼﺎﺭ ﺭﻭﭖ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﮞ، ﺑﮩﻦ ، ﺑﯿﭩﯽ ، ﺑﯿﻮﯼ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺑﮯ ﭘﺮﺩﮦ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺟﺴﻢ ﮐﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺗﯽ ﺳﮯ ﻣﺘﺎﺛﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺤﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ۔ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻣﺮﺩ ﻣﺮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ ہوﺱ ﮐﺎ ﭘﺠﺎﺭﯼ ﺑﻦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﮔﺮ ﮔﻮﺷﺖ ﮐﻮ ﮐﮭﻼ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﮈﮬﺎﻧﭗ ﮐﺮ ﻧﺎ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﺘﮯ ﺑﻠﮯ ﺗﻮ ﺁﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﮨﯽ، ﺍﺏ ﻗﺼﻮﺭ ﺗﻮ ﮐﺘﮯ ﺑﻠﻮﮞ ﮐﺎ ﮨﯽ ﮨﮯ ﮐﮯ ﻭﮦ ﮔﻮﺷﺖ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﮔﮭﺎﺱ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﻗﺼﻮﺭ ﻣﺮﺩ ﮐﺎ ﮨﯽ۔ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﺍﺳﮑﯽ ﺑﮩﻦ، ﺑﯿﭩﯽ، ﺑﮩﻮ، ﺑﯿﻮﯼ ﺑﮯ ﭘﺮﺩﮦ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻏﯿﺮﺕ ﮐﺎ ﻣﻈﺎﮨﺮﮦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺭﻭﮐﻨﺎ ﭼﺎﺋﯿﮯ، ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﻣﺮﺩ ﺭﻭﮐﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺗﻨﮓ ﻧﻈﺮ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﻃﻌﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﻃﺮﺡ ﻃﺮﺡ ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺳﻨﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﻣﮕﺮ ﺁﺝ ﮐﯽ ﺁﺯﺍﺩ ﺧﯿﺎﻝ ﻋﻮﺭﺕ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﮯ ﮔﻮﺷﺖ ﺗﻮ ﮐﮭﻼ ﺭﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺳﮯ ﮐﺘﻮﮞ ﺑﻠﻮﮞ ﭘﺮ ﭘﺎﺑﻨﺪﯼ ﻟﮕﺎ ﺩﯼ ﺟﺎﺋﮯ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﺳﯽ ﺩﺋﯿﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ..
یہ پیغام میرا ان سب کے لئے ہے جو
کسی کی ماں بہن ہے...✌

Sunday, November 4, 2018

Bano Qudsia

بانو قدسیہ کا دل ہلا دینے والا مضمون

          *مرد_ھوس_کا_پجاری*

*جب عورت مرتی ھے اس کا جنازہ مرد اٹھاتا ھے ۔اس کو لحد میں یہی مرد اتارتا ھے ۔۔۔ پیدائش پر یہی مرد اس کے کان میں اذان دیتا ھے۔ باپ کے روپ میں سینے سے لگاتا ھے بھائی کے روپ میں تحفظ فراہم کرتا ھے اور شوہر کے روپ میں محبت دیتا ھے۔ اور بیٹے کی صورت میں اس کے قدموں میں اپنے لیے جنت تلاش کرتا ھے ۔۔۔ واقعی بہت ھوس کی نگاہ سے دیکھتا ھے ۔۔۔ ھوس بڑھتے بڑھتے ماں حاجرہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے صفا و مروہ کے درمیان سعی تک لے جاتی ھے ۔۔۔ اسی عورت کی پکار پر سندھ آپہنچتا ھے ۔۔۔ اسی عورت کی خاطر اندلس فتح کرتا ھے۔ اور اسی ھوس کی خاطر 80% مقتولین عورت کی عصمت کی حفاظت کی خاطر موت کی نیند سو جاتے ہیں۔ واقعی ''مرد ھوس کا پجاری ھے۔''*

*لیکن جب ھوا کی بیٹی کھلا بدن لیے، چست لباس پہنے باہر نکلتی ھے اور اسکو اپنے سحر میں مبتلا کر دیتی ھے تو یہ واقعی ھوس کا پجاری بن جاتا ھے ۔۔۔ اور کیوں نا ھو؟؟*

*کھلا گوشت تو آخر کتے بلیوں کے لیے ھی ھوتا ھے ۔۔۔*

*جب عورت گھر سے باھر ھوس کے پجاریوں کا ایمان خراب کرنے نکلتی ھے۔ تو روکنے پر یہ آزاد خیال عورت مرد کو "تنگ نظر" اور "پتھر کے زمانہ کا" جیسے القابات سے نواز دیتی ھے کہ کھلے گوشت کی حفاظت نہیں کتوں بلوں کے منہ سینے چاہیے ھیں*

*ستر ہزار کا سیل فون ہاتھ میں لیکر تنگ شرٹ کے ساتھ پھٹی ھوئی جینز پہن کر ساڑھے چارہزار کا میک اپ چہرے پر لگا کر کھلے بالوں کو شانوں پر گرا کر انڈے کی شکل جیسا چشمہ لگا کر کھلے بال جب لڑکیاں گھر سے باہر نکل کر مرد کی ھوس بھری نظروں کی شکایت کریں تو انکو توپ کے آگے باندھ کر اڑادینا چاہئیے جو سیدھا یورپ و امریکہ میں جاگریں اور اپنے جیسی عورتوں کی حالت_زار دیکھیں جنکی عزت صرف بستر کی حد تک محدود ھے*

*"سنبھال اے بنت حوا اپنے شوخ مزاج کو*

*ھم نے سر_بازار حسن کو نیلام ھوتے دیکھا ھے"*
2

*مرد*

*میں نے مرد کی بے بسی تب محسوس کی جب میرے والد کینسر سے جنگ لڑ رہے تھے اور انھیں صحت یاب ہونے سے زیادہ اس بات کی فکر لاحق تھی کہ جو کچھ انھوں نے اپنے بچوں کے لئے بچایا تھا وہ ان کی بیماری پر خرچ ہورہا ھے اور ان کے بعد ھمارا کیا ھوگا؟ میں نے مرد کی قربانی تب دیکھی جب ایک بازارعید کی شاپنگ کرنے گئی اور ایک فیملی کو دیکھا جن کے ھاتھوں میں شاپنگ بیگز کا ڈھیر تھا اور بیوی شوہر سے کہہ رھی تھی کہ میری اور بچوں کی خریداری پوری ھوگئی آپ نے کرتا خرید لیا اپ کوئی نئی چپل بھی خرید لیں جس پر جواب آیا ضرورت ہی نہیں پچھلے سال والی کونسی روز پہنی ھے جو خراب ھوگئی ھوگی، تم دیکھ لو اور کیا لینا ھے بعد میں اکیلے آکر اس رش میں کچھ نہیں لے پاو گی۔ ابھی میں ساتھ ھوں جو خریدنا ھے آج ھی خرید لو۔*
*میں نے مرد کا ایثار تب محسوس کیا جب وہ اپنی بیوی بچوں کے لئے کچھ لایا تو اپنی ماں اور بہن کے لئے بھی تحفہ لایا، میں نے مرد کا تحفظ تب دیکھا جب سڑک کراس کرتے وقت اس نے اپنے ساتھ چلنے والی فیملی کو اپنے پیچھے کرتے ہوئے خود کو ٹریفک کے سامنے رکھا۔ میں نے مرد کا ضبط تب دیکھا جب اس کی جوان بیٹی گھر اجڑنے پر واپس لوٹی تو اس نے غم کو چھپاتے ھوئے بیٹی کو سینے سے لگایا اور کہا کہ ابھی میں زندہ ھوں لیکن اس کی کھنچتی ہوئے کنپٹیاں اور سرخ ھوتی ھوئی آنکھیں بتارھی تھیں کہ ڈھیر تو وہ بھی ھوچکا، رونا تو وہ بھی چاہتا ہے لیکن یہ جملہ کہ مرد کبھی روتا نہیں ھے اسے رونے نہیں دیگا۔*

۔ ( *بانو قدسیہ*)
کاپی

Lesson

Monday, October 22, 2018

Kuch yadden

آج بیٹھے بٹھائے کیوں یاد آگئے!

📖  غالباً1995 کی بات ہے. میرے ایک  دوست نے مجھے ایک عظیم خوشخبری سنائی کہ 3.5 ایم بی کی ہارڈ ڈسک مارکیٹ میں آگئی ہے 😲

مجھے یاد ہے ہم سب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں۔

کیونکہ!  آج 100 جی بی والی ڈسک بھی چھوٹی لگتی ہے. وہ *پینٹیم فور جو سٹیٹس سمبل سمجھا جاتا تھا, آج کسی کو یاد ہی نہیں.

🖥  حالانکہ صرف چھ سات سال  پہلے ہم میں سے اکثر کے پاس ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر تھے, آئے دن پاور فیل ہو جاتی تھی‘ سی ڈی روم خراب ہو جاتی تھی. اُن دنوں کمپیوٹر ٹھیک کرنے والے ’انجینئرز‘ کہلاتے تھے‘ آج کل مکینک کہلاتے ہیں.

............ تھوڑا اور پیچھے چلے جائیں تو فلاپی ڈسک کے بغیر کام نہیں چلتا تھا‘ فلاپی اپنی مرضی کی مالک ہوتی تھی‘ چل گئی تو چل گئی ورنہ میز پر کھٹکاتے رہیں کہ شائد کام بن جائے.

👀  یہ سب کچھ ہم سب نے اپنی آنکھوں کے سامنے تیزی سے بدلتے ہوئے دیکھا.

🍂 موبل آئل سے موبائل تک کے سفر میں ہم قدیم سے جدید ہوگئے.
🍂  لباس سے کھانے تک ہر چیز بدل گئی لیکن نہیں بدلا تو میتھی والے پراٹھے کاسواد نہیں بدلا.

🍂  شہروں میں زنگر برگر اور فاسٹ فوڈ کی اتنی دوکانیں کھل گئی ہیں کہ آپ اگر مکئی کی روٹی اور ساگ کھانا چاہیں تو ڈھونڈتے رہ جائیں.

🍸  گھروں میں بننے والی لسی اب ریڑھیوں پر آگئی ہے.

👎🏻  شائد ہی کوئی ایسا گھر ہو جس میں سب لوگ ایک ہی وقت میں دستر خوان یا ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کرکھانا کھاتے ہوں. فریج میں ہر چیز پڑی ہے‘ جس کا جب جی چاہتا ہے نکالتا ہے اور گرم کر کے کھا لیتا ہے. البتہ باہر جا کر کھانا ہو تو یہ روایت اب بھی برقرار ہے.

👈🏻  جن گھروں کے دروازے رات آٹھ بجے  کے بعد بند ہو جایا کرتے تھے, وہ اب رات گیارہ بجے کے بعد کھلتے ہیں اورپوری فیملی ڈنر کھا کر رات ایک بجے واپس پہنچتی ہے.

👎🏻  پورے دن کے لیے واٹر کولر میں دس روپے کی برف ڈالنے کی اب ضرورت نہیں رہی. اب ہر گھر میں فریج ہے‘ فریزر ہے لیکن برف پھر بھی استعمال نہیں ہوتی کیونکہ پانی ٹھنڈا ہوتاہے.

🍂  فریج آیا تو ’چھِکو‘ بھی گیا.

🍂  اب تندور پر روٹیاں لگوانے کے لیے پیڑے گھر سے بنا کر نہیں بھیجے جاتے.

🍂  اب لنڈے کی پرانی پینٹ سے بچوں کے بستے نہیں سلتے‘ مارکیٹ میں ایک سے ایک ڈیزائن والا سکول بیگ دستیاب ہے.

👎🏻  بچے اب ماں باپ کو امی ابو سے زیادہ ’یار‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں.

💡  بلب انرجی سیور میں بدل گئے اور انرجی سیور ایل ای ڈی میں.

👎🏻  چھت پر سونا خواب بن گیا ہے, لہذا اب گھروں میں چارپائیاں بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں.

ڈبل بیڈ ہیں اور ان پر بچھے موٹے موٹے گدے. مسہری اور پلنگ گھر کی سیٹنگ سے میچ نہیں کرتے.

✨  اب بچے سائیکل سیکھنے کے لیے قینچی نہیں چلاتے, کیونکہ ہر عمر کے بچے کے سائز کا سائیکل آچکا ہے.

✨  جن سڑکوں پر تانگے دھول اڑاتے تھے وہاں اب گاڑیاں دھواں اڑاتی ہیں.

💭  کیا زمانہ تھا جب گھروں کے دروازے سارا دن کھلے رہتے تھے, بس آگے ایک بڑی سی چادر کا پردہ لٹکا ہوا ہوتا تھا.

👈🏻  اب تو دن کے وقت بھی بیل ہو تو پہلے سی سی ٹی وی کیمرے میں دیکھنا پڑتا ہے.

☎  شہر سے باہر کال ملانا ہوتی تھی تو لینڈ لائن فون پر پہلے کال بک کروانا پڑتی تھی اور پھر مستقل وہیں موجود رہنا پڑتا تھا. گھنٹے بعد کال ملتی تھی اور کئی دفعہ درمیان میں آپریٹر بھی مداخلت کر دیتا تھا کہ تین منٹ ہونے والے ہیں.

⌚  سعودیہ وغیرہ سے کوئی عزیز پاکستان آتا تھا, تو گفٹ کے طور پر ’گھڑیاں‘ ضرور  لے کر آتا تھا.

🌾  واک مین بھی ختم ہوگئے‘ پانی کے ٹب میں موم بتی سے چلنے والی کشتی بھی نہیں رہی.

❄  پانی کی ٹینکیوں کا رواج چلا تو گھر کا ہینڈ پمپ بھی ’بوکی‘ سمیت رخصت ہوا.

👎🏻  واش بیسن آیا تو ’ کھُرے‘ بنانے کی بھی ضرورت نہیں رہی.

☕  چائے پیالی سے نکل کر کپ میں قید ہوگئی.

🚬  سگریٹ آیا تو حقے کا خاتمہ کر گیا‘ اب شائد ہی کسی گھر میں کوئی حقہ تازہ ہوتا ہو.

✨  میں نے ہمیشہ ماں جی کو پرانے کپڑوں اور ٹاکیوں کو اکھٹا کرکے تکیے میں بھرتے دیکھا.

📖  تب ایسا ہی ہوتا تھا. اب نہیں ہوتا‘ اب مختلف میٹریلز کے بنے بنائے تکیے ملتے ہیں اور پسند بھی کیے جاتے ہیں.

👚  پہلے مائیں خود بچوں کے کپڑے سیتی تھیں‘ بازار سے اون کے گولے منگوا کر سارا دن جرسیاں بنتی تھیں‘ اب نہیں... بالکل نہیں‘ ایک سے ایک جرسی بازار میں موجود ہے‘ سستی بھی‘ مہنگی بھی۔
📜  پہلے کسی کو اُستاد بنایا جاتا تھا‘ اب اُستاد مانا جاتا ہے.

📺  پہلے سب مل کر ٹی وی دیکھتے تھے‘ اب اگر گھر میں ایک ٹی وی بھی ہے تو اُس کے دیکھنے والوں کے اوقات مختلف ہیں. دن میں خواتین Repeat ٹیلی کاسٹ میں ڈرامے دیکھ لیتی ہیں‘ شام کو مرد نیوز چینل سے دل بہلا لیتے ہیں.

📰   معصومیت بھرے پرانے دور میں الماریوں میں اخبارات بھی انگریزی بچھائے جاتے تھے کہ ان میں مقدس کتابوں کے حوالے نہیں ہوتے.

💔  چھوٹی سے چھوٹی کوتاہی پر بھی کوئی نہ کوئی سنا سنایا خوف آڑے آجاتا تھا.

♨  زمین پر نمک یا مرچیں گر جاتی تھیں تو ہوش و حواس اڑ جاتے تھے کہ قیامت والے دن آنکھوں سے اُٹھانی پڑیں گی.

💰  گداگروں کو پورا محلہ جانتا تھا اور گھروں میں ان کے لیے خصوصی طور پر کھلے پیسے رکھے جاتے تھے.

✉  گھروں میں خط آتے تھے اور جو لوگ پڑھنا نہیں جانتے تھے وہ ڈاکئے سے خط پڑھواتے تھے. ڈاکیا تو گویا گھر کا ایک فرد شمار ہوتا تھا ‘ خط لکھ بھی دیتا تھا‘ پڑھ بھی دیتا تھا اور لسی پانی پی کر سائیکل پر یہ جا وہ جا.

💌  امتحانات کا نتیجہ آنا ہوتا تھا تو ’نصر من اللہ وفتح قریب‘ پڑھ کر گھر سے نکلتے تھے اور خوشی خوشی پاس ہوکر آجاتے تھے.

👆🏻  یہ وہ دور تھا جب لوگ کسی کی بات سمجھ کر ’’اوکے‘‘ نہیں ’’ٹھیک ہے‘‘ کہا کرتے تھے.

✨  موت والے گھر میں سب محلے دار سچے دل سے روتے تھے اور خوشی والے گھر میں حقیقی قہقہے لگاتے تھے.

🍂  ہر ہمسایہ اپنے گھر سے سالن کی ایک پلیٹ ساتھ والوں کو بھیجتا تھا اور اُدھر سے بھی پلیٹ خالی نہیں آتی تھی.

🍨  میٹھے کی تین ہی اقسام تھیں... حلوہ، زردہ چاول اور کھیر.

🍦  آئس کریم دُکانوں سے نہیں لکڑی کی بنی ریڑھیوں سے ملتی تھی جو میوزک نہیں بجاتی تھیں.

❄  گلی گلی میں سائیکل کے مکینک موجود تھے جہاں کوئی نہ کوئی محلے دار قمیص کا کونا منہ میں دبائے ‘ پمپ سے سائیکل میں ہوا بھرتا نظر آتا تھا.

✨  نیاز بٹتی تھی تو سب سے پہلا حق بچوں کا ہوتا تھا.

🌾   ہر دوسرے دن کسی نہ کسی    گلی کے کونے سے آواز آجاتی ’’کڑیو‘ منڈیو‘ شے ونڈی دی لے جاؤ‘۔ اور آن کی آن میں بچوں کا جم غفیر جمع ہوجاتا اور کئی آوازیں سنائی دیتیں ’’میرے بھائی دا حصہ وی دے دیو‘.

🥡  دودھ کے پیکٹ اور دُکانیں تو بہت بعد میں وجود میں آئیں‘ پہلے تو لوگ ’بھانے‘ سے دودھ لینے جاتے تھے.

💞  گفتگو ہی گفتگو تھی‘ باتیں ہی باتیں تھیں‘ وقت ہی وقت تھا.
♻  گلیوں میں چارپائیاں بچھی ہوئی ہیں‘ محلے کے بابے حقے پی رہے ہیں اور پرانے بزرگوں کے واقعات بیان ہورہے ہیں.

📺  جن کے گھر وں میں ٹی وی آچکا تھا انہوں نے اپنے دروازے محلے کے بچوں کے لیے ہمیشہ کھلے رکھے.

🎈 مٹی کا لیپ کی ہوئی چھت کے نیچے چلتا ہوا پنکھا سخت گرمی میں بھی ٹھنڈی ہوا دیتا تھا.
لیکن... پھر اچانک سب کچھ بدل گیا.

💔💘  ہم قدیم سے جدید ہوگئے.

👎🏻  اب باورچی خانہ سیڑھیوں کے نیچے نہیں ہوتا.

📌  کھانا بیٹھ کر نہیں پکایا جاتا. دستر خوان شائد ہی کوئی استعمال کرتا ہو.

📌  منجن سے ٹوتھ پیسٹ تک کے سفر میں ہم نے ہر چیز بہتر سے بہتر کرلی ہے

لیکن!
            پتا نہیں کیوں اس قدر سہولتوں کے باوجود
ہمیں...
گھر میں
ایک ایسا ڈبہ
ضرور رکھنا پڑتا ہے
جس میں
ڈپریشن‘ سردرد‘
بلڈ پریشر‘ نیند اور وٹامنز
کی گولیاں
ہر وقت موجود ہوں۔۔۔!!!

بشکریہ وٹس اپ

Sunday, October 14, 2018

Apni Pehchn

ایک دانا آدمی کی گاڑی ایک گاوں کے قریب خراب ہو گئی اس نے  سوچا کہ گاوں سے کسی سے مدد لیتا ہوں
وہ جیسے ہی گاوں میں داخل ہوا تو  اس نے دیکھا ایک بوڑھا شخص چارپائی پر بیٹھا ہے اور اس کے قریب مرغیاں دانہ چگ رہی ہیں ان مرغیوں میں ایک باز کا بچہ بھی ہے جو مرغیوں کی طرح دانے چگ رہا ہے وہ حیران ہوا اور اپنی گاڑی کو بھول کر
اس بوڑھے شخص سے کہنے لگا کہ یہ کیسے خلاف قدرت ممکن ہوا کہ ایک باز کا بچہ زمین پر مرغیوں کے ساتھ دانے چگ رہا ہے
تو اس بوڑھےشخص نے کہا دراصل یہ باز کا بچہ صرف ایک دن کا تھا جب یہ پہاڑ پر مجھے گرا ہوا ملا میں اسے اٹھا لایا یہ زخمی تھا میں نے اس کو مرہم پٹی کرکے اس کو مرغی کے بچوں کے ساتھ رکھ دیا جب اس نےپہلی بار آنکھیں کھولیں تو اس نے خود کو مرغی کے چوزوں کے درمیان پایا یہ خود کو مرغی کا چوزہ سمجھنے لگا اور دوسرے چوزوں کے ساتھ ساتھ اس نے بھی دانہ چگنا سیکھ لیا
اس دانا شخص نے گاوں والے سے درخواست کی کہ یہ باز کا بچہ مجھے دے دیں تحفے کے طور پر یا اس کی قیمت لے لیں میں اس پر تحقیق کرنا چاہتا ہوں
اس گاوں والے نے باز کا بچہ اس دانا شخص کو تحفے کے طور پر دے دیا
یہ اپنی گاڑی ٹھیک کروا کر اپنے گھر آ گیا
وہ روزانہ باز کے بچے کو چھت سے نیچے پھینک دیا کرتا مگر باز کا بچہ مرغی کی طرح اپنے پروں کو سکیڑ کر گردن اس میں چھپا لیتا
وہ روزانہ بلاناغہ باز کے بچے کو اپنے سامنے ٹیبل پر بیٹھاتا اور اس کہتا کہہ تو باز کا بچہ ہے مرغی کا نہیں اپنی پہچان کر
اسی طرح اس نے کئی دن تک اردو پنجابی سندھی سرائیکی پشتو ہر زبان میں اس باز کے بچے کو کہا کہ تو باز کا بچہ ہے مرغی کا نہیں اپنی پہچان کر
اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش کرو
آخر کار وہ دانا شخص ایک دن باز کے بچے کو لے کر ایک بلند ترین پہاڑ پر چلا گیا اور اسے کہنے لگا کہہ خود کو پہچاننے کی کوشش کرو تم باز کے بچے ہو اور اس شخص نے یہ کہہ کر باز کے بچے کو پہاڑ کی بلندی سے نیچے پھینک دیا
باز کا بچہ ڈر گیا اور اس نے مرغی کی طرح اپنی گردن کو جھکا کر پروں کو سکیڑ لیا اور آنکھیں بند کر لیں تھوڑی دیر بعد اس نے آنکھیں کھولیں تو اس نے دیکھا کہ زمین تو ابھی بہت دور ہے تو اس نے اپنے پر پھڑ پھڑائے اور اڑنے کی کوشش کرنے لگا
جیسے کوئی آپ کو دریا میں دھکا دے دے تو آپ تیرنا نہیں بھی آتا تو بھی آپ ہاتھ پاؤں ماریں گے
تھوڑی ہی دیر میں وہ اپنے آپ کو بیلنس کرنے لگا کیونکہ باز میں اڑنے صلاحیت خدا نے رکھی ہوتی ہے
تھوڑی ہی دیر میں وہ اونچا اڑنے لگا
وہ خوشی سے چیخنے لگا اور اوپر اور اوپر جانے لگا
کچھ ہی دیر میں وہ اس دانا شخص سے بھی اوپر نکل گیا اور نیچے نگاہیں کرکے اس کا احسان مند ہونے لگا
تو دانا شخص نے کہا اے باز میں نے تجھے تیری شناخت دی ہے اپنے پاس سے کچھ نہیں دیا
یہ کمال صلاحیتیں تیرے اندر موجود تھیں مگر تو بے خبر تھا
یہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہے
ہماری ایک خاص شناخت ہے
ہم ایک خاص امت کے ارکان ہیں
 ہم ایک ایٹمی ملک کے شہری ہیں
ہمارے اندر اللہ رب العزت نے بے پناہ صلاحیتیں رکھی ہیں
مگر پرابلم یہ ہے کہ ہمارے ارد گرد بے شمار مرغیاں ہیں جن میں ہمارے ٹی وی چینل اور اخبارات بھی شامل ہیں
جو مسلسل ہم کو بتاتے ہیں کہ ہم باز کے بچے نہیں مرغی کے بچے ہیں
جو مسلسل بتاتے ہیں کہ تم سپر پاور نہیں ہو سپر پاور کوئی اور ہے
جو مسلسل بتاتے ہیں کہ تم بہادر اور طاقتور نہیں ہو بلکہ بزدل اور کمزور ہو
تمھاری تو قوم ہی ایسی ہے
تم دہشتگرد ہو تم لوگ آگے نہیں بڑھ سکتے
کامیابی کی شرط یہ ہے کہ ہم خود کو پہچاننے کی کوشش کریں تاکہ ہم ایک بہترین امت اور بہترین قوم بن کر اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔

Saturday, October 6, 2018

گلزار صاحب 👉

یار سمپورن سنگھ ، تجھے یہ کیا سوجھی کہ بارڈر پار کرتے ہی تو جہلم کے دینہ چلا گیا۔نہ صرف چلا گیا بلکہ جنم بھومی دیکھ کر جذباتی سا بھی ہوگیا۔ رہا نا کیس کٹانے کے بعد بھی سردار کا سردار ۔۔۔ٹھیک ہے تو دینے کے کالڑا گاؤں میں پیدا ہوگیا تھا پر تو ہے تو انڈین ۔جیسے میرا باپ ٹونک راجھستان میں پیدا ہوگیا تھا پر تھا تو وہ پاکستانی ۔۔۔جہاں تو نے ستتر میں سے ستر سال دینہ جائے بغیر گزار دیے وہاں صرف پانچ سات سال کی تو اور بات تھی۔
ویسے تو دینے سے نکلا کب تھا ؟ اس بڑھاپے میں بھی جب تو ممبئی کے باندرہ جمخانے میں ہر صبح ٹینس کی بال اچھالتا ہے سچی سچی بتا نیٹ کے دوسری طرف دینہ کے علاوہ اور کیا ہوتا ہے ؟؟؟؟
جھلا کی لبدا پھرے
یارو او گھر کیہڑا
لوکاں توں پچھدا پھرے
جھلا ہسدا پھرے ، جھلا روندا پھرے
جھلا گلی گلی رلدا پھرے۔
مسافر ہوں میں یارو
نا گھر ہے نا ٹھکانہ
مجھے چلتے جانا ہے بس ۔۔۔
چلتے جانا۔۔۔۔۔
او ماجھی رے ۔۔۔۔
اپنا کنارہ
ندیا کی دھارا ہے۔۔۔
تجھ سے ناراض نہیں ہوں زندگی
حیران ہوں میں ۔۔پریشان ہوں میں۔۔
قطرہ قطرہ ملتی ہے
قطرہ قطرہ جینے دو
زندگی ہے پینے دو
پیاسی ہوں میں پیاسی رہنے دو۔۔۔۔
اوئے سمپورن مجھے ایک بات تو بتا ۔۔۔۔تو نے آخر اتنے برسوں میں سیکھا کیا ؟ اتنا تیرا نام ہے ۔۔۔کیسی بانکی من موہنی تیری شکل ہے۔۔۔ایک سو بیس فلموں کے تو نے گانے، انیس فلموں کے ڈائیلاگ اور اتنی ہی فلموں کی کہانیاں لکھیں۔ بائیس فلموں کو ڈائریکٹ کیا ۔دو فلمیں جیب سے بنائیں ، مرزا غالب سمیت تین ٹی وی سیریلز پیدا کئے ، بارہ میوزک البم تخلیق کیے ۔اکتیس فلم فئیر ایوارڈز ، ایک آسکر ، ایک گریمی اور ایک پدم بھوشن سینے پہ ٹانک لیا ۔تین شعری مجموعے اور ایک کہانیوں کا مجموعہ چھاپ مارا۔ایک ذہین بیٹی کو دنیا میں لایا۔
’اپنے آپ راتوں کو سیڑھیاں دھڑکتی ہیں ، چونکتے ہیں دروازے‘ ۔۔۔جیسی طلسماتی لائنیں نغمے میں ڈھال دیں۔۔۔پر نہیں سیکھی تو زندگی گذارنے کی مصلحتی الف ب نہیں سیکھی۔۔۔
تجھے اب دینے جانے کی آخر کیا ضرورت پڑ گئی تھی ؟ وہاں کیا دھرا ہے ؟ ہوگیا نا ایک دفعہ پیدا تو ، ہوگئی ایک دفعہ پارٹیشن ، دھکیل دیا گیا تیرے جیسے لاکھوں خاندانوں کو ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر ۔اب کیوں اپنے اور دوسروں کے زخموں کو کریدنے کے شوق میں مرا جارہا ہے۔۔۔۔
سات دن تجھے رہنا تھا پاکستان میں۔۔رہتا لاہور کے ہیپی گو لکیوں کے درمیان اور کراچی کے ادب میلے میں اور پھر بند گھروں میں عیاشی کے ساتھ ۔۔دیتا اپنے مرضی کے چینلوں کو انٹرویو۔۔۔کرتا میٹھی میٹھی ملاؤنی باتیں۔۔۔اور سوار ہوجاتا جہاز میں نم آلود آنکھوں کے ساتھ یہاں کی آْؤ بھگت کی تعریفیں کرتے کرتے۔۔
جب تو نے ان لائنوں والی نظم بھی لکھ دی تھی کہ
آنکھوں کو ویزا نہیں لگتا
بند آنکھوں سے روز سرحد پار چلا جاتا ہوں
سپنوں کی سرحد کوئی نہیں۔۔۔۔
تو اس کے بعد کھلی آنکھوں دینہ جانے کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی؟
تیرا کیا خیال تھا کہ وہاں جو بچے تیرے ساتھ لکن میٹی کھیلتے تھے ان کی عمریں منجمد ہو چکی ہوں گی؟ وہ درخت جنہیں تیرا نام یاد تھا ان کی یاداشت اور بینائی آج بھی تازہ ہوگی؟ جس آنگن میں تو دوڑتا تھا اس کی اینٹوں کا رنگ ویسا ہی لال لال ہوگا ؟ جس کمرے کی دیواریں تیری سوتیلی ماں اور بہن بھائیوں کی ڈانٹ اور پیار سے تیرے باوا نے گوندھی تھیں ان کا پلستر وہیں کا وہیں جما ہوگا ؟؟۔۔۔۔۔
یار سردار جی تجھے اتنی سی بات پلے نہیں پڑی کہ جس جگہ کو چھوڑ دو اس کی طرف مت لوٹو ۔کہیں وہ تصویر بھی برباد نہ ہوجائے جو دل کے ڈرائنگ روم میں یاد کی کیل سے ٹنگی ہے۔
اب تو اچھا رہا۔۔۔۔دل کا دینہ بھی تیرے ہاتھ سے گیا ۔۔۔۔
سمپورن سنگھ ایک تو مجھے تیری آج تک سمجھ نہیں آئی ۔ایک طرف یہ مصرعہ لکھتا ہے کہ،
نظر میں رہتے ہو جب تم نظر نہیں آتے
اور پھر اس کے بالکل الٹ تو دینہ چلا گیا۔وہ بھی اپنی نظروں سے دیکھنے۔۔۔۔
پتہ ہے کیا؟ اب میں تجھے تھوڑا تھوڑا سمجھنے لگا ہوں ۔۔۔تو ہنسنے ، رونے ، چیخنے والا جھلا بالکل نہیں۔تو ایک اذیت پرست آدمی ہے۔۔۔تو وہاں اس لیے گیا تھا کہ غم و اندوہ ، ٹوٹ پھوٹ کا تازہ سٹاک مل جائے اور پھر تو اس خام مال سے باقی زندگی نغماتی و نثری بت تراشے۔۔۔یہ تم جیسے تخلیق کاروں کی بڑی پرانی ٹکنیک ہے۔۔۔۔
دیکھ اگر تو اپنی خود غرضی کی قربانی دے دیتا اور دینہ نا جاتا تو کتنے ہزار لوگ تجھے لاہور اور کراچی میں دیکھ کر ، سن کر اور سوچ کر گلزار ہوجاتے۔۔۔مگر تو نے ان کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔۔۔۔ اب تو کہہ رہا ہے کہ جلد پاکستان واپس آئے گا ۔۔۔۔۔یار سمپورن اپنی عمردیکھ اور اپنے وعدے دیکھ۔۔۔۔
اب جب کہ تو لوٹ گیا ہے ۔اب تو بتا دے تجھے دینہ جانے کا مشورہ دیا کس نے تھا؟؟؟؟
_____
وسعت اللہ خان

Saturday, September 22, 2018

محبت ♥ کی شادیاں.

محبت کی شادیاں عام طور پر چند ” ڈیٹس ” ، کچھ فلموں اور تھوڑے بہت تحفے تحائف کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔ لڑکیاں اور لڑکے سمجھتے ہیں کہ ہماری باقی زندگی بھی ویسے ہی گذرے گی جیسا فلموں میں دکھاتے ہیں ، لیکن فلموں میں کبھی شادی کے بعد کی کہانی دکھائی ہی نہیں جاتی ہے ۔ اس سے فلم فلاپ ہونے کا ڈر ہوتا ہے ۔ الیکٹرانک میڈیا نے گوٹھ گاؤں اور کچی بستیوں میں رہنے والی لڑکیوں تک کے دل میں ” شاہ رخ خان “جیسا آئیڈیل پیدا کر دیا ہے ۔
آپ ہماری جینے مرنے کی قسمیں کھانے والی نسل کی سچی محبت کا اندازہ اس بات سے کریں کہ 2017 میں 50000 خلع کے کیسسز آئے جن میں سے 30000 ” لو میرجز ” تھیں ۔
آپ حیران ہونگے صرف گجرانوالہ شہر میں 2005 سے 2008 تک طلاق کے 75000 مقدمات درج ہوئے ہیں ۔
آپ کراچی کی مثال لے لیں جہاں 2010 میں طلاق کے40410کیسسز رجسٹرڈ ہوئے ۔ 2015 میں صرف خلع کے 13433 سے زیادہ کیسسز نمٹائے گئے ۔
گھریلو زندگی کی تباہی میں سب سے بڑا عنصر ناشکری بھی ہے ۔ کم ہو یا زیادہ ، ملے یا نہ ملے یا کبھی کم ملے پھر بھی ہر حال میں اپنے شوہر کی شکر گزار رہیں ۔
سب سے بڑی تباہی اس واٹس ایپ اور فیس بک سوشل میڈیا نے مچائی ہے ۔
پہلے لڑکیاں غصے میں ہوتی تھیں یا ناراض ہوتی تھیں تو ان کے پاس اماں ابا اور دیگر لوگوں تک رسائی کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا تھا ۔شوہر شام میں گھر آتا ، بیوی کا ہاتھ تھام کر محبت کے چار جملے بولتا ، کبھی آئسکریم کھلانے لے جاتا اور کبھی ٹہلنے کے بہانے کچھ دیر کا ساتھ مل جاتا اور اس طرح دن بھر کا غصہ اور شکایات رفع ہوجایا کرتی تھیں ۔
لیکن ابھی ادھر غصہ آیا نہیں اور ادھر واٹس ایپ پر سارے گھر والوں تک پہنچا نہیں ۔
یہاں میڈم صاحبہ کا ” موڈ آف ” ہوا اور ادھر فیس بک پر اسٹیٹس اپ لوڈ ہو گیا ۔ اور اس کے بعد یہ سوشل میڈیا کا جادو وہ وہ گل کھلاتا ہے کہ پورے کا پورا خاندان تباہ و برباد ہوجاتا ہے یا نتیجہ خود کشیوں کی صورت میں نکلتا ہے ۔
مائیں لڑکیوں کو سمجھائیں کہ خدارا ! اپنے شوہر کا مقابلہ اپنے باپوں سے نہ کریں ۔ ہوسکتا ہے آپکا شوہر آپ کو وہ سب نہ دے سکے جو آپ کو باپ کے گھر میں میسر تھا ۔
لیکن یاد رکھیں آپ کے والد کی زندگی کے پچاس ، ساٹھ سال اس دشت کی سیاحی میں گذر چکے ہیں اور آپ کے شوہر نے ابھی اس دشت میں قدم رکھا ہے ۔ آپ کو سب ملے گا اور انشاء اللہ اپنی ماں سے زیادہ بہتر ملے گا اگر نہ بھی ملے تو بھی شکر گذاری کی عادت ڈالیں سکون اور اطمینان ضرور ملے گا ۔
بیویاں شوہروں کی اور شوہر بیویوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر تعریف کرنا اور درگذر کرنا سیکھیں ۔
زندگی میں معافی کو عادت بنالیں ۔
خدا کے لئیے باہر والوں سے زیادہ اپنے شوہر کے لئیے تیار ہونے اور رہنے کی عادت ڈالیں ۔ساری دنیا کو دکھانے کے لئیے تو خوب ” میک اپ” لیکن شوہر کے لئیے ” سر جھاڑ منہ پھاڑ ” ایسا نہ کریں ۔
جتنی دفعہ ممکن ہو محبت کا اظہار کریں کبھی تحفے تحائف دے کر بھی کیا کریں ۔
یاد رکھیں
مرد کی گھر میں وہی حیثیت ہے جو سربراہ حکومت کی ریاست میں ہوتی ہے ۔ اگر آپ ریاست کی بہتری کی بجائے ہر وقت سربراہ سے بغاوت پر آمادہ رہینگے تو ریاست کا قائم رہنا مشکل ہوجائیگا ۔ جس کو اللہ نے جو عزت اور مقام دیا ہے اس کو وہی عزت اور مقام دینا سیکھیں چاہے آپ مرد ہیں یا عورت ۔
ایک مثالی گھر ایک مثالی خاندان تشکیل دیتا ہے جو کہ ایک مثالی معاشرے کی پہچان ہوتی ہے۔
: آج عورت گوشت کی دکان لگتی ھے اور باھر کتے انتظار مین کھڑے ھین کہ۔۔۔۔
۔
آج عورت کے پھٹے کپڑے سے اسکی غربت کا احساس نہین ھوتا بلکہ جسم دیکھنے کی سوچ ھوتی ھے۔۔۔
۔
​اِسلام نے عَورت کو عِزَّت دِی ہے یا آج کے جَدِید و تَرَقِّى يافتہ مُعاشرے نے؟ آج اگر ایک پاؤ گوشت لیں تو شاپِنگ بیگ میں بَند کر کے لے جاتے ہیں، اور پَچاس کِلو کی عَورت بغیر پَردے کے بازاروں میں گُهومتی ہے. کیا یہی ہے آج كا جَدِيد مُعاشره کہ کهانا تو پاکِیزه ہو اور پَکانے والی چاہےجیسی بِهی ہو؟​
​جَدِيد مُعاشرے كا عَجِيب فَلسَفہ:​
​لوگ اپنی گاڑیوں کو تو ڈھانپ کر رکهتے ہیں تاکہ اُنہیں دُهول مِٹِّی سے بَچا سکیں، مگر اپنی عَورتوں کو بے پَرده گُهومنے دیتے ہیں چاہے اُن پر کِتنی ہِی گَندی نَظریں کِیوں نہ پَڑیں؟​
​دَورِ جَدِید کی جاہِلیَّت:​
​عَورت کی تَصاوِیر اِستِعمال کر کے چَهوٹى بڑی تمام کمپنِیاں اپنی تِجارت کو فَروغ دیتی ہیں، یہاں تک کہ شَيوِنگ كَرِيم میں بِهی اِس کی تَصاوِير ہوتی ہیں. فَرانس و اَمرِیکہ میں جِسم فَروشی کا شُمار نَفع بَخش تِجارت کے زُمرے میں آتا ہے. اُن لوگوں نے اِسلامی مُمالِک میں بِهی ڈَورے ڈال لِئے ہيں. مُسَلمان عَورت کو بِهی جَہَنَّم کی طرف لے جا رہے ہیں. چُنانچہ مُسَلمان عَورت تَہذِیبِ جَدِید کے نام پر بے پَردہ پِهرنے لگی ہے.​
​ماسٹر پَلان كے ذريعے نئى نَسل کو تَباه کِیا جا رہا ہے:​
​غَور کِیجِئے!​
​ہر اِشتِہار میں لڑکا لڑکی کے عِشق کی کہانی مِلے گی.​
​ذرا سوچِیئے!​
​- سَیون اَپ کے اِشتِہار میں مَحَبَّت کا کیا کام؟​
​- تَرَنگ چائے کے اِشتِہار میں گَلے لگنے اور ناچنے کا کیا کام؟​
​- موبائِل کے اِشتِہار میں لڑکے لڑکِیوں کی مَحَبَّت کا کیا کام؟​
​دیکِهيئے!​
​آج کوئی نوجوان اِس فحاشی سے بَچ نہیں پایا. سِکهایا جا رہا ہے کہ آپ بِهی شیطان کی پَیروی کریں، فحاشی کریں، مَوج کریں.​
​آج عَورت خُود اِتنی بے حِس ہو چُکی ہے کہ جو بِهی پَردے کی بات کرے اُس کے خِلاف سَڑکوں پر نِکل آتی ہے. جبكہ ایک ایک روپے کی ٹافِیوں، جُوتوں، حَتّٰى كہ مَردوں كى شَيو كرنے كے سامان تک کے ساتھ بِکنے پر کوئی اِحتِجاج نہیں کرتی، بلکہ اِسے رَوشَن خیالِی کی عَلامَت سمجهتی ہے.​
​لمحۂ شَرمِندگى:​
​آج ہر بِکنے والی چِیز کے ساتھ عَورت کی حَیاء اور مَرد کی غَیرت بِهی بِک رہی ہے.​
​نام نِہاد پَرده… صِرف فَيشن كيلِئے:​
​فِی زَمانہ بُرقَعہ اِتنا دِلكَش و دِلفَريب ہے کہ اُس کے اُوپر ايک اور بُرقَعہ اَوڑهنے کى ضُرُورت ہے.​
​”پَرده نَظَر کا ہوتا ہے.“​
​اِسی سوچ نے آدِهی قَوم کو بے پَرده کر دِیا ہے.​
​مَرد آنکهیں نِیچِی نہیں کرنا چاہتا، عَورت پَرده كرنے کو جہالت سمجهتی ہے… مگر دونوں کو مُعاشرے ميں عِزَّت و اِحتِرام کی تلاش ہے.​
​بے پَرده نَظَر آئِيں كَل جو چَند بِيبِياں…​
​اَكبؔر زَمِيں ميں غَيرَتِ قَومِى سے گَڑھ گيا.​
​پُوچها جو اُن سے آپ كا پَرده وه كيا ہُوا…؟​
​كہنے لگِيں كہ عَقل پَہ مَردوں كى پَڑ گيا.​
​(اَكبؔر اِلہٰ آبَادِى)​
​پَرده عَورت کے چہرے پر ہوتا ہے، اگر چہرے پر نہیں تو سمجھ لِیجِئے کہ عَقل پَہ پَڑا ہُوا ہے.​
​اگر جِسم کی نُمائِش کرنا ماڈَرن و تَرَقِّی یافتہ ہونے کی عَلامَت ہے تو پِهر جانور اِنسَانوں سے بہت زیاده ماڈَرن و تَرَقِّی یافتہ ہیں.​
​پہلے شَرم کی وجہ سے پَرده کِیا جاتا تها اور اَب پَرده کرتے ہُوئے شَرم آتی ہے.​
درخواست ہے کہ .......!
ہم سب خود بھی اس گمراہی سے بچیں اور دوسروں کو بھی گمراہ ہونے سے بچائیں۔
جزاک اللہ خیرا

Friday, September 21, 2018

اُردُو زُبان کا خون..!

اُردُو زُبان کا خون کیسے ہوا ؟
اور ذمہ دار کون ہے؟

یہ ہماری پیدائش سے کچھ ہی پہلے کی بات ہے جب مدرسہ کو اسکول بنا دیا گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔۔
لیکن ابھی تک انگریزی زبان کی اصطلاحات دورانِ تعلیم استعمال نہیں ہوتی تھیں۔ صرف  انگریزی کے چند الفاظ ہی  مستعمل تھے،
مثلا":
ہیڈ ماسٹر،
فِیس،
فیل،
پاس وغیرہ
"گنتی" ابھی "کونٹنگ" میں تبدیل نہیں ہوئی تھی۔ اور "پہاڑے" ابھی "ٹیبل" نہیں کہلائے تھے۔

    60 کی دھائی میں چھوٹے بچوں کو نام نہاد پڑھے لکھے  گھروں میں "خدا حافظ" کی جگہ "ٹاٹا"  سکھایا جاتا اور مہمانوں کے سامنے بڑے فخر سے معصوم بچوں سے "ٹاٹا" کہلوایا جاتا۔
  زمانہ آگے بڑھا، مزاج تبدیل ہونے لگے۔
عیسائی مشنری سکولوں کی دیکھا دیکھی کچھ نجی (پرائیوٹ) سکولوں نے انگلش میڈیم کی پیوند کاری شروع کی۔
سالانہ امتحانات کے موقع پر کچھ نجی (پرائیویٹ) سکولوں میں پیپر جبکہ سرکاری سکول میں پرچے ہوا کرتے تھے۔ پھر کہیں کہیں استاد کو سر کہا جانے لگا- اور پھر آہستہ آہستہ سارے اساتذہ ٹیچرز بن گئے۔
پھر عام بول چال میں غیر محسوس طریقے سے اردو کا جو زوال شروع ہوا وہ اب تو نہایت تیزی سے جاری ہے۔

اب تو یاد بھی نہیں کہ کب جماعت، کلاس میں تبدیل ہوگئی- اور جو ہم جماعت تھے وہ کب کلاس فیلوز بن گئے۔

ہمیں بخوبی یاد ہے کہ 50 اور 60 کی دھائی میں؛ اول، دوم، سوم، چہارم، پنجم، ششم، ہفتم، ہشتم، نہم اور دہم، جماعتیں ہوا کرتی تھیں، اور کمروں کے باہر لگی تختیوں پر اسی طرح لکھا ہوتا تھا۔
پھر ان کمروں نے کلاس روم کا لباس اوڑھ لیا-
اور فرسٹ سے ٹینتھ کلاس کی نیم پلیٹس لگ گئیں۔
تفریح کی جگہ ریسیس اور بریک کے الفاظ استعمال ہونے لگے۔

گرمیوں کی چھٹیوں اور سردیوں کی چھٹیوں کی جگہ سمر ویکیشن اور وِنٹر ویکیشن آگئیں۔
چھٹیوں کا کام چھٹیوں کا کام نہ رہا بلکہ ہولیڈے پریکٹس ورک ہو گیا ۔
پہلے پرچے شروع ہونے کی تاریخ آتی تھی اب پیپرز کی ڈیٹ شیٹ آنے لگی۔
امتحانات کی جگہ ایگزامز ہونے لگے-
ششماہی اور سالانہ امتحانات کی جگہ مڈٹرم اور فائینل ایگزامز کی اصطلاحات آگئیں-
اب طلباء امتحان دینے کیلیے امتحانی مرکز نہیں جاتے بلکہ سٹوڈنٹس ایگزام کیلیے ایگزامینیشن سینٹر جاتے ہیں۔
قلم،
دوات،
سیاہی،
تختی، اور
سلیٹ
جیسی اشیاء گویا میوزیم میں رکھ دی گئیں ان کی جگہ لَیڈ پنسل، جیل پین اور بال پین آگئے- کاپیوں پر نوٹ بکس کا لیبل ہوگیا-

نصاب کو کورس کہا جانے لگا
اور اس کورس کی ساری کتابیں بستہ کے بجائے بیگ میں رکھ دی گئیں۔
ریاضی کو میتھس کہا جانے لگا۔
اسلامیات اسلامک سٹڈی بن گئی- انگریزی کی کتاب انگلش بک بن گئی- اسی طرح طبیعیات، فزکس میں اور معاشیات، اکنامکس میں، سماجی علوم، سوشل سائنس میں تبدیل ہوگئے-

پہلے طلبہ پڑھائی کرتے تھے اب اسٹوڈنٹس سٹڈی کرنے لگے۔
پہاڑے یاد کرنے والوں کی اولادیں ٹیبل یاد کرنے لگیں۔
اساتذہ کیلیے میز اور کرسیاں لگانے والے، ٹیچرز کے لیے ٹیبل اور چئیرز لگانے لگے۔

داخلوں کی بجائے ایڈمشنز ہونے لگے۔.... اول، دوم، اور سوم آنے والے طلبہ؛ فرسٹ، سیکنڈ، اور تھرڈ آنے والے سٹوڈنٹ بن گئے۔
پہلے اچھی کارکردگی پر انعامات ملا کرتے تھے پھر پرائز ملنے لگے۔
بچے تالیاں پیٹنے کی جگہ چیئرز کرنے لگے۔
یہ سب کچھ سرکاری سکولوں میں ہوا ہے۔

باقی رہے پرائیویٹ سکول، تو ان کا پوچھیے ہی مت۔ ان کاروباری مراکز تعلیم کیلیے کچھ عرصہ پہلے ایک شعر کہا گیا تھا،

مکتب نہیں،  دکان ہے،  بیوپار ہے
مقصد یہاں علم نہیں، روزگار  ہے۔

اور تعلیمی اداروں کا رونا ہی کیوں رویا جائے، ہمارے گھروں میں بھی اردو کو یتیم اولاد کی طرح ایک کونے میں ڈال دیا گیا ہے۔

زنان خانہ اور مردانہ تو کب کے ختم ہو گئے۔ خواب گاہ کی البتہ موجودگی لازمی ہے تو اسے ہم نے بیڈ روم کا نام دے دیا۔

باورچی خانہ کچن بن گیا اور اس میں پڑے برتن کراکری کہلانے لگے۔
غسل خانہ پہلے باتھ روم ہوا پھر ترقی کر کے واش روم بن گیا۔
مہمان خانہ یا بیٹھک کو اب ڈرائنگ روم کہتے ہوئے فخر محسوس کیا جاتا ہے۔

مکانوں میں پہلی منزل کو گراونڈ فلور کا نام دے دیا گیا اور دوسری منزل کو فرسٹ فلور۔
دروازہ ڈور کہلایا جانے لگا، پہلے مہمانوں کی آمد پر گھنٹی بجتی تھی اب ڈور بیل بجنے لگی۔
کمرے روم بن گئے۔ کپڑے الماری کی بجائے کپبورڈ میں رکھے جانے لگے۔

"ابو جی" یا "ابا جان" جیسا پیارا اور ادب سے بھرپور لفظ دقیانوسی لگنے لگا، اور ہر طرف ڈیڈی، ڈیڈ، پاپا، پپّا، پاپے کی گردان لگ گئی حالانکہ پہلے تو پاپے(رس) صرف کھانے کے لئے ہوا کرتے تھے اور اب بھی کھائے ہی جاتے ہیں-
اسی طرح شہد کی طرح میٹھا لفظ "امی" یا امی جان  "ممی" اور مام میں تبدیل ہو گیا۔

سب سے زیادہ نقصان رشتوں کی پہچان کا ہوا۔
چچا، چچی، تایا، تائی، ماموں ممانی، پھوپھا، پھوپھی، خالو خالہ سب کے سب ایک غیر ادبی اور بے احترام سے لفظ "انکل اور آنٹی" میں تبدیل ہوگئے۔
بچوں کے لیے ریڑھی والے سے لے کر سگے رشتہ دار تک سب انکل بن گئے۔
یعنی محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔

ساری عورتیں آنٹیاں، چچا زاد،
ماموں زاد، خالہ زاد بہنیں اور بھائی سب کے سب کزنس میں تبدیل ہوگئے، نہ رشتے کی پہچان رہی اور نہ ہی جنس کی۔

نہ جانے ایک نام تبدیلی کے زد سے کیسے بچ گیا ۔ ۔ ۔ گھروں میں کام کرنے والی خواتین پہلے بھی ماسی کہلاتی تھیں اب بھی ماسی ہی ہیں۔

گھر اور سکول میں اتنی زیادہ تبدیلیوں کے بعد بازار انگریزی کی زد سے کیسے محفوظ رہتے۔
دکانیں شاپس میں تبدیل ہو گئیں اور ان پر گاہکوں کی بجائے کسٹمرز آنے لگے، آخر کیوں نہ ہوتا کہ دکان دار بھی تو سیلز مین بن گئے جس کی وجہ سے لوگوں نےخریداری چھوڑ دی اور شاپنگ کرنے لگے۔
سڑکیں روڈز بن گئیں۔
کپڑے کا بازار کلاتھ مارکیٹ بن گئی، یعنی کس ڈھب سے مذکر کو مونث بنادیا گیا۔
کریانے کی دکان نے جنرل اسٹور کا روپ دھار لیا،
نائی نے باربر بن کر حمام بند کردیا اور ہیئر کٹنگ سیلون کھول لیا۔

ایسے ماحول میں دفاتر بھلا کہاں بچتے۔ پہلے ہمارا دفتر ہوتا تھا جہاں مہینے کے مہینے تنخواہ ملا کرتی تھی، وہ اب آفس بن گیا اور منتھلی سیلری ملنے لگی ہے اور جو کبھی صاحب تھے وہ باس بن گئے ہیں،
بابو کلرک اور چپراسی پِیّن بن گئے۔
پہلے دفتر کے نظام الاوقات لکھے ہوتے تھے اب آفس ٹائمنگ کا بورڈ لگ گیا-

سود جیسے قبیح فعل کو انٹرسٹ کہا جانے لگا۔ طوائفیں آرٹسٹ بن گئیں
اور محبت کو 'لَوّ' کا نام دے کر محبت کی ساری چاشنی اور تقدس ہی چھین لیا گیا۔
صحافی رپورٹر بن گئے اور خبروں کی جگہ ہم نیوز سننے لگے۔

کس کس کا اور کہاں کہاں کا رونا رویا جائے۔

اردو زبان کے زوال کی صرف حکومت ہی ذمہ دار نہیں،  عام آدمی تک نے اس میں حتی المقدور حصہ لیا ہے-

اور دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ ہم نے اپنی خوبصورت زبان اردو کا حلیہ مغرب سے مرعوب ہو کر کیسے بگاڑ لیا ہے۔
وہ الفاظ جو اردو زبان میں پہلے سے موجود ہیں اور مستعمل بھی ہیں ان کو چھوڑ کر انگریزی زبان کے الفاظ کو استعمال کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں

وائے ناکامیِ متاع کارواں  جاتا    رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

ہم کہاں سے کہاں آگئے اورکہاں جارہے  ہیں؟
دوسروں کا کیا رونا روئیں، ہم خود ہی اس کے ذمہ دار ہیں. دوسرا کوئی نہیں۔
بہت سے اردو الفاظ کو ہم نے انگریزی قبرستان میں مکمل دفن کر دیا ہے اور مسلسل دفن کرتے جا رہے ہیں. اور روز بروز یہ عمل تیزتر ہوتا جا رہا ہے۔

روکیے، خدا را روکیے،
ارود کو مکمل زوال پزیر ہونے سے روکیے۔

اگر آپ مناسب سمجھیں تو قوم کو بیدار کرنے کی خاطر اس تحریر کو شیئر کریں.

ملاحظہ: قومیں اپنی قومی زبان  کو پروان چڑھا کر ہی ترقی کرتی ہیں۔ موجودہ زمانے کا یہی سکہ بند اصول ہے۔ جاپان اور چین اس کی زندہ مثال ہیں
#کاپی شدہ