Saturday, January 26, 2019

Aurt

یورپ میں فیملی کا کوئی تصور نہیں ہے
یوں کہہ لیں کے بہن بھائی ماں باپ دادا دادی کی کوئی تمیز نہیں ہے
جنسی ضرورت کے لئے شادی کی ضرورت  محسوس نہیں کی جاتی بلکہ جانوروں کی طرح  وہاں رشتے گڈ مڈ ہیں ...
وہاں عورت کی کوئی عزت نہیں ہے کوئی شوہر نہیں ہے جو کہے بیگم تم گھر رہو میں ہر چیز تمہیں گھر لا کے دونگا.
وہاں کوئی بیٹا نہیں ہے جو کہے ماں تم گھر سے نہ نکلو مجھے حکم دو.
وہاں کوئی بیٹی نہیں ہے جو کہے ماں تم تھک گئی ہو آرام کرو میں کام کر دونگی
وہاں عورت گھر کے کام خود کرتی ہے...
اور روزی کمانے کے لئے دفتروں میں دھکے بھی خود کھاتی ہے.
کل تک آزادی کے نعرے لگانے والی آج سکون کی ایک سانس کو ترس رہی ہے.
کوئی مرد انہیں نہیں اپناتا
نہ ان کی ذمہ داری اٹھاتا ہے.
وہ صرف استعمال کی جاتی ہیں بس...
مسلمان عورتو !
تم کسی ملکہ سے کم نہیں ہو باپ کے سایہ میں لاڈوں سے پلی ہو.
بھائی تمہارا محافظ ہے
شوہر تمہارا زندگی بھر کا ساتھی ہے.
تم کیا سمجھتی ہو گھر میں بیٹھ کر ہانڈی روٹی کر کے تم  ملازمہ ہو؟
نہیں نہیں یہ بھول ہے تمہاری یہ ہانڈی روٹی کا سامان جو تمہارا شوہر لے کر آتا ہے یہ گرمیوں کی دھوپ اور گرم لوُ وجود پگھلنے والے سورج سے لڑ کر لاتا ہے.
تمہیں تو مغربی عورتوں سے عبرت حاصل کرنی چاہیے.
لیکن تم کو آزادی نسواں کے سنہرے خواب دکھا کر تمہارے وقار کو ختم کرنے کی سازش ہو رہی ہے .
اس سازش کو نہیں سمجھو گی تو تم بھی متاعِ کوچہ و  بازار بن جاؤ گی.
پلیز یورپی کلچر کی محبت کو دل سے نکال دیجیے ورنہ صرف پچھتاوا ہاتھ آئے گا اور کچھ نہیں.اگر کسی کوئ بات بری لگئ ہو تو معزرت.اسلام وعلیکم

Friday, January 25, 2019

امربیل

عشق
امربیل
عشق کا لفظ "عشقہ" سے ماخوﺫ ہے جو اس بیل کا نام ہے جس کو عربی میں " لہلاب " اور ہندی میں " عشق پیچاں" اردو میں ( امربیل ) اور پشتو میں جس کو ( نیلا داری) کہتے ہیں یہ بیل جس درخت سے لپٹ جائے اس کو بے برگ و بار کر دیتی ہے پھر ﺫرد ہو جاتا ہے اور کچھ دنوں بعد بالکل خشک ہو جاتا ہے
اسی طرح جب عشق قلبِ عاشق میں پیدا ہو تو غیر محبوب قلب سے فنا خود عاشق کی ﺫات فنا اور معشوق ہی معشوق رہ جاتا ہے....

"  ہمیں تو حُکم مجاوری ھے ،،،،،،،،، !!!
مزارِ دل میں ہے کون مدفن ؟
یہ کس عروسہ کا مقبرہ ہے ؟
نہ کوئی کُتبہ ،،،،،،، نہ کوئی تختی ،،،،،،
نہ سنگِ مرمر کی سِل پہ لِکھا ھُوا،،،
محبّت کا کوئی شعر ،،،،

فقط سرہانے سے پائینتی تک
امر کی بیل اِک لپٹ گئی ھے ،،،،،،،،،

جو اِک زمانے سے کہہ رہی ہے

یہاں ٹھکانہ تھا عاشقی کا
یہ پیر خانہ تھا عاشقی کا

کسے خبر کہ
یہاں ہے مدفن
فقیر کوئی
اسیر کوئی
یا پھر ہے وارث
کی ھیر کوئی

مگر ہماری
مجال ہی کیا

یہاں جو بولے
زبان کھولیں !!

ہمارے لب تو
سِلے ھُوئے ہیں
نہ جانے کب سے
سِلے ھُوئے ہیں

    "ہمیں تو حُکم مجاوری ھے ،،،،،،،،، !
#اچک_شدہ

Sunday, January 20, 2019

Muhabbt

ایسا نہیں تھا کہ میں نے  کوشش نہیں کی...
ایسا نہیں تھا کہ میری محبت میری محبت میں کمی تھی...
میں نے دعا بھی مانگی اور بھیک بھی...
میں نے سجدے بھی کیے اور پرھیز بھی...
آنسو بھی بھائے ہاتھ بھی جوڑے...
دوست بھی بدلے... سوچ بھی...
اور سب سے بڑھہ کر
اس کی خاطر.... خود کو ہی بدل ڈالا
میں نے معافی بھی مانگی منت بھی کی...
میں نے اسے وہ وعدے بھی یاد دلائے جو اس نے کیے تھے...
مگر
جس کو جانا ہوتا ہے وہ جاتا ہے
لفظوں کی لاج کہاں رکھتا ہے...
یہ منت...
یہ سماجت...
یہ دعائیں یہ بھیک...
سب بیکار جاتی ہیں
میں نے تو محبت بھی اتنی خاموشی سے کی تھی
کہ میری خاموشی نے شور مچا دیا تھا...
آج اس مقام پر ہوں...
نہ اس کی طلب ہے اور نہ جینے کی تمنا...
مجھے آج بھی یاد ہے وہ ایک  جملہ جو جدائی کی وجہ ہے...
‏"آج کے دؤر میں ایسی محبت کون کرتا ہے...)
#🙂💔↩

Wednesday, January 16, 2019

Tax خور Army

ٹیکس خور فوج۔۔۔!!
تحریر: ماسٹر محمد فہیم امتیاز

ہمارے ٹیکسوں پر پلتی فوج۔۔ہمارے ٹیکسوں سے لی گئی بندوقیں۔۔ہمارے ٹیکسوں سے تنخواہ لیتی فوج۔۔ہمارے ٹیکس،ہمارے ٹیکسوں وغیرہ وغیرہ
یہ گردان عام سنی ہوگی آپ نے مگر حساب نہیں کیا ہوگا۔۔چنانچہ آج میں نے سوچا آپ احباب کے سامنے افواج کی ٹیکس خوری کا بھانڈہ پھوڑ ہی دوں۔۔۔!!

پہلے پہلے تو یہ بھی رٹ لگائی گئی تھی کافی عرصہ کہ فوج 70 سے 80 پرسنٹ بجٹ کھا جاتی ملک کا۔۔خیر جب اس چول کے جواب میں ان دانشور حضرات کو فگرز نکال کر دکھائے گئے تو بوتھا شریف بند ہو گیا۔۔کیونکہ لیٹیسٹ بجٹ میں تمام تر انکریمنٹ لگنے کے بعد بھی ٹوٹل کا 18 پرسنٹ تھا جو دفاعی بجٹ کے لیئے مختص کیا گیا۔۔۔۔چلیں اسی کو لے کر چلتے ہیں کہ ان 18 سے کیا کیا گلچھرے اڑاتی یہ فوج کیا کرتی ان 18 روپے میں۔۔

8 لاکھ فوج کی نقل و حرکت کے لیئے گاڑیاں ان 18 روپے میں
ہزاروں گاڑیوں کا فیول ان 18 روپے میں
ہزاروں گاڑیوں کی مینٹینس/ریپیرنگ ان 18 روپے میں
میڈیکل ان 18 روپے میں
ادوایات ان 18 روپے میں
مشینری ان 18 روپے میں
میزائل ان 18 روپے میں
راکٹ ان 18 روپے میں
بمب ان 18 روپے میں
بندوقیں ان 18 روپے میں
گولیاں ان 18 روپے میں
ٹینک ان 18 روپے میں
توپیں ان 18 روپے میں
مارٹر ان 18 روپے میں
رہائیشیں ان 18 روپے میں
8 لاکھ فوج کا کھانا پینا ان 18 روپے میں
8 لاکھ فوج کی رہائش ان 18 روپے میں
8 لاکھ فوج کے یونیفارم ان 18 روپے میں
بیرکوں/کیمپوں کی تعمیر و مرمت ان 18 روپے میں
فوجی دفتروں کی کرسی سے لے کر پینسل تک تمام فرنیچر ان 18 روپے میں سٹشنری ان 18 روپے میں
تمام تر فوجی جوانوں کی زمینی،ہوائی اور بحری ٹریننگ ان 18 روپے میں
موبائل اور فیلڈ فون سے لے کے واکی ٹاکی تک ساری کمیونیکیشن ان 18 روپے میں
سٹیمپ سے لے کر کمپیوٹرز تک کا سامان ان 18 روپے میں
فائیٹر جیٹ ان 18 روپے میں
گن شپ ہیلی کاپٹر ان 18 روپے میں
بحری جہاز تک ان 18 روپے میں
ان سب کا فیول ان 18 روپے میں
فوجی بیسز،رن وے، ہیڈ کوارٹرز تمام تر انفراسٹرکچر ان 18 روپے میں
انٹیلیجنس کے سیٹ اپ ان 18 روپے میں
ایجنسیز کا خر،چہ ان 18 روپے میں
بیرون ملکی کورسز ان 18 روپے میں
8 لاکھ فوجیوں کی تنخواہیں ان 18 روپے میں

اچھا سنیئے سنیئے۔۔۔یہ کچھ بھی نہیں بخدا یہ کچھ بھی نہیں یہ وہ تھا جو بچہ بچہ جانتا،یہ وہ تھا جو ایک ایک سویلین جانتا ہے،فوج کے خرچے دفاع کے خرچے کیا ہیں،ایٹمی تنصیبات کی حفاظت کیسے ہوتی ہم کیا جانیں،تم کیا جانو۔۔۔تم دو ٹکے کے فیسبکی دانشوڑ جسے فوجی ٹریننگ کے دوران تیس سیکنڈ میں ضائع ہو جانے والے پیراشوٹ کی قیمت تک نہیں معلوم تم کیا جج کرو گے،وطن عزیز کی حفاظت پر آنے والے خرچ کو ایٹمی اثاثوں کی حفاظت پر آنے والے خرچ کو۔۔اچھا چھوڈو خرچ کو، خرچے کو تمہاری اتنی اوقات نہیں کہ تمہیں بتایا جائے تمہیں حساب دیا جائے۔۔۔

بات کرتے ہیں کام کی سروس کی،فوج کیا کرتی۔۔۔
فوج بارڈ پر کھڑی۔۔
فوج سمندر میں اتری۔۔
فوج فضا میں بلند۔۔
فوج سیاچن کی بلند وبالا چوٹیوں پر
فوج سبی کی کی تپتی ہوئی دھوپ میں
دہشتگردوں کے خلاف جانیں گنواتی یہ فوج
انڈیا،امریکہ،اسرائیل کے خلاف محاذ آرا یہ فوج
عالمی صیہونی طاقتوں کے نشانے پر یہ فوج
سر زمین پاک کے اٹیمی اثاثوں کی حفاظت کرتی یہ فوج
جن سیاستدانوں کے تم تلوے چاٹتے ان کی محافظ یہ فوج
آپریشن ضرب عضب میں جانیں دیتی یہ فوج
آپریشن راہ نجات میں قربان ہوتی یہ فوج
آپریشن خیبر ون،ٹو،تھری،فور کرتی یہ فوج
آپریشن رد الفساد میں لڑتی یہ فوج
زلزلے میں فوج
سیلاب میں فوج
بارشوں میں فوج
طوفان میں فوج
حادثات میں فوج
الیکشن میں فوج
مردم شماری میں فوج
ریسکیو میں فوج
پھر بھی تم بکواس کرتے ہو فوجی پر،،
اس فوجی پرجو اپنی خوشیاں قربان کرتا ہے
اس فوجی پر جو ہر عید، شب برات میں سرحد پر کھڑا ہوتا
اس فوجی پر جسکو اپنی شادی کے لیئے بھی تین چھٹیاں ملتیں
اس فوجی پر جس کی منکوحہ بیوی سے پہلے بیوہ کہلانے لگی
اس فوجی پر جو تمہارے بچوں کی حفاظت کے لیئے 6 6 مہینے اپنے بچے کا چہرہ نہیں دیکھتا۔۔۔
تم بکواس کرتے ہو ان فوجیوں پر جنہوں نے اپنا پیٹ کاٹ کے ایک ایک دن کی تنخواہ اس پاک سر زمین کے نام کی۔۔کہ کل تمہارے بچے پیاسے نہ مریں۔۔۔یہ کرتی فوج تمہارے ٹیکسوں سے۔۔۔

یہ ہے فوج۔۔۔!!جس پر تم بھونکتے کیونکہ تم 18 روپے دیتے ہو۔۔؟
نہیں ہر گز نہیں تم بھونکتے ہو،کیونکہ تمہیں اس بھونکنے پر ہڈی ڈالی جاتی ہے،اور سن لو انسان نما کتو مجھ ماسٹر محمد فہیم امتیاز سمیت ہر غیرت مند پاکستانی کی للکار سن لو ہماری کھلی جنگ ہے تم تمام سے جو بکواس کرتے دین حق پر،وطن عزیز پر اور اس پاک سر زمین کے بہادر سپوتوں یعنی افواج پاک پر اور ہاں یہ 18 روپے (18پرسنٹ) دے کر احسان نہیں کر رہے تم ایسے ہی جیسے باقی کے 82 روپے دے کر احسان نہیں کر رہے،،ذرا مانگو نہ ان 82 روپوں کا حساب۔۔۔وہ بھی تو تمہارے ٹیکسز ہیں۔۔۔

82 روپے جو تم سیاستدانوں کو دیتے ہو
جن کے بدلے وہ تمہارے بچوں کو گاڑیوں تلے روند جاتے۔۔جن کے بدلے وہ تمہارے زمینوں پر قبضے کر لیتے،،جن کے بدلے وہ تمہیں میں سے کئیوں کی بہن بیٹیوں کی عزتوں کو نوچ جاتے۔۔جن 82 روپے سے وہ کنالوں کے بنگلوں میں اپنی نسلوں کو عیش کرواتے۔۔جن کے بدلے وہ سالوں پوری دنیا میں عیاشیاں کرتے۔۔جس 82 پرسنٹ سے اربوں کھربوں کی جائیدادیں بناتے۔۔ادر تو تم لیٹ جاتے ہو ان کے سامنے تو تشریف رگڑتے ہو وہ تمہیں کتے کی طرح ذلیل کرتے اور تم سب جیئے جیئے کے نعرے لگاتے تمہارا بس نہیں چلتا کہ گلے میں پٹہ ڈال کر ان سیاستدانوں کے پیچھے پیچھے دم ہلاتے پھرو۔۔۔

تم حساب لو نہ ان 82 روپوں کا جو بیوروکریٹس کو دیتے۔جو تمہاری زمینوں میں کروڑوں کا غبن کرتے،جو تحصیلدار سارا سارا دن آفس میں بٹھا کے ذلیل کرتے،،جو کلرک دفتروں میں تم سے ہزاروں کی رشوت لیتے وہاں کیوں نہیں یاد آتا تمہیں ٹیکس وہاں کیوں کتے کی طرح زبان نکلی ہوئی ہوتی ہے تمہاری۔۔۔۔

تم حساب لو نہ ان 82 روپوں کا جو ڈاکٹروں کو دیتے
اس ڈاکٹر کو جس کے تم پاوں پڑتے ہو کہ آخری سانسوں پر اٹکے تمہارے بچے کو دیکھ لے اور وہ ٹھوکر مار کے کہتا میرے کلینک پر لے آو یا مرو۔۔

تم حساب لو نہ ان 82 روپے کا جو دیتے ہو پولیس والوں کو
ان میں وہ پولیس والے بھی ہوتے جو تم پر ناجائز مقدمات بناتے،جو تمہارے بوڈھے باپ کو گھر سے اٹھا کے لے جاتے،جو جھوٹے کیس بنا کے تشدد کرتے۔۔جو لاکھوں کی رشوت لے کر بھی سالوں تک ذلیل کرتے۔۔وہاں تو تمہاری صاب جی صاب جی بند نہیں ہوتی۔۔ان کے سامنے تو رالیں ٹپکا رہے ہوتے ہو۔۔ان کے سامنے تو جی حضوری ایسی جیسے باپ بنا لیا ہو انہیں۔۔ذرا کرو نہ بات ٹیکسز کی۔۔۔!!
(پورا محکمہ برا نہیں گندے انڈے ٹارگٹ ہیں)

چلیں چھوڈیں۔۔۔۔بات جو نکلے گی تو دور تلک جائے گی۔۔۔
ختم کرتا ہوں مگر جاتے جاتے یہ بتا دوں کہ تم جن 18 روپے پر اچھلتے رہتے ہو وہ جنرل باجوہ کو نہیں دیتے، کہ لو باجوہ صاحب بانٹ دیں۔۔وہ بھی تم انہیں سیاستدانوں کو دیتے ہو جن کے دن رات تلوے چاٹتے ہو،،وزارت دفاع کو دیتے ہو،انہیں سیاستدانوں کو جنہیں باقی کے 82 روپے دیتے ہو اور دینے کے بعد الٹے لیٹ جاتے ہو۔۔۔

لیکن اب بس۔۔اب تمہاری بکواسات سننے والا کوئی نہیں کیونکہ یہ عوام پہچان چکی ہے اپنے محسنوں کو،اپنے محافظوں کو۔۔افواج پاک کو۔۔اور ان کے اندر موجزن پاک سرزمین کی محبت کو۔۔

پاکستان زندہ باد
افواج پاک ہمیشہ پائندہ باد

Tuesday, January 15, 2019

Ek Swall

آپ سے ایک سوال پوچھنا ہے؟ میں گھر کی طرف قدم بڑھا رہا تھا اچانک ایک آواز سماعت سے ٹکرائی،میں رکا پیچھے مڑ کر دیکھا ایک اکیس بائیس سال کا نوجوان تھا، جی!بتائیں کیا بات ہے؟ میں رک گیا اور اس کی طرف متوجہ ہو کر پوچھا۔ اگر سوال کروں تو بُرا تو محسوس نہیں کریں گے؟ اس نوجوان نے مزید قریب ہو کر پوچھا نہیں بالکل نہیں آپ پوچھیں،اگر جواب آتا ہوا ضرور دوں گا ورنہ کسی سے پوچھ کر بتا دوں گا،میں نے اسے اعتماد میں لیا کیونکہ میں چاہتا تھا کہ اسے جہاں تک ہوسکے رہنمائی دوں۔ میں کیسے پتہ چلا سکتا ہوں کہ اللہ میرے قریب ہے؟اس نے قدرے دھیمے لہجے میں پوچھا، اگر آپ کچھ وضاحت کریں تو شاید بات میں سمجھ سکوں،میں اسے کریدنا چاہتا تھا دیکھیں ناں،میں نماز جہاں تک ہوسکے پڑھتا ہوں،روزے بھی رکھتا ہوں اور صدقہ بھی اکثر دیتا ہوں مجھے نہیں یاد پڑتا کہ کسی مانگنے والے کو جھڑکا ہو،بعض اوقات تو اللہ کو یاد کرتے ہوئے آنکھیں بھی نم ہو جاتی ہیں مگر۔۔۔۔۔۔ وہ خاموش ہوا اور پھر گویا ہوا، مگر پتہ نہیں ،یوں لگتا ہے کہ جیسے اللہ ناراض ہے،اللہ میری سنتا نہیں،یوں لگتا ہے میرے اعمال بس کھوکھلے ہو چکیں ہیں ،میں جتنا آگے جاتا ہوں تو یوں لگتا ہے کہ اتنا ہی پیچھے آرہا ہوں،میں بہت پریشان ہوں،اور یہ پریشانی اب عبادات میں بھی خلل ڈال رہی ہیں۔۔ میں غور سے آنکھیں نیچی کرکے باتیں سن رہا تھا کہ اچانک،یوں لگا یہ نوجوان اندر سے بُری طرح ٹوٹ چکا تھا،میں نے ایک سوال کیا۔ اچھا مجھے یہ بتاؤ خلل کیسا؟ بس یہی ، کہ خیال آتا ہے کہ اب عبادت کرنے کا کیا فائدہ،اب دعائیں مانگنے کا کیا فائدہ،یہ خیالات اب عبادت کرنے میں خلل ڈالتے ہیں، اس نے وضاحت کی، میں نے بات شروع کی، بھئی! ایک بات تو آپ سمجھتے ہو ناں؟ کہ چور اُسی جگہ جاتا ہے جہاں دولت ہوتی ہے، جی ایسا ہی ہے،اس نے جوا ب دیا میں مخاطب ہوا، تو سمجھو !کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے دل میں ایمان ہے ،شیطان اسی کے دل پر حملہ کرتا ہے اور اسی کو بہکاتا ہے جس کے دل میں ایمان کی رمق بھی ہو، اب آپ کا اگلا سوال کہ اللہ کی قربت کا کیسے پتہ چلے گا، تو بھئی! یہ مت دیکھو اللہ رب العزت کتنا قریب ہے بلکہ یہ دیکھو ہم کتنے قریب ہیں، جتنا ہم اللہ رب العزت کے قریب ہوں گے وہ ذات بھی اسی طرح ہمارے قریب ہوگی اور اس ذات کی عبادت ہی اس کے قرب کا احساس ہے، تو آپ کا نماز پڑھنا،روزہ رکھنا اور اس سے مانگنا یہ اس کے قرب کی نشانی ہے،یاد رکھیں جب اللہ ناراض ہوتا ہے تو سب سے پہلے عبادات سے غافل کر دیتا ہے،اپنے سامنے جھکنے سے غافل کر دیتا ہے،آپ خود دیکھیں جب آپ نماز کے لیے جارہے ہوں تو کتنے لوگ اپنے دنیاوی کاموں میں لگے ہوں گے ،تو سوچیں اس رب نے آپ کو ہی کیوں چُنا؟۔کیونکہ کیونکہ وہ آپ کے قریب ہے،اسے ہماری عبادات کی ضرورت نہیں بلکہ ضرورت تو ہمیں اس ذات کی عبادت کی ہے، میں نے بات مکمل کی،اور آخر میں ایک سوال پوچھا دیکھو اگر تم اپنی ماں کا کہا مانو گے تو کیا خیال ہے اس کی محبت کم ہوگی یا زیادہ؟ ظاہر ہی محبت زیادہ ہوگی،اس نے فوراً جواب دیا، تو میرے بھائی وہ اللہ رب العزت تو ستر ماؤں جتنا پیار لیے ہوئے ہیں تو وہ ذات کسیے دور ہوگی؟ میں خاموش ہوا،اچانک دیکھا وہ نوجوان سلام کرکے دوبارہ مسجد کی طرف چل پڑا۔۔!!

Monday, January 14, 2019

Muhabbt

       کیوں تلاش ہے تجھے محبت کی محبت اپنے اسرار کسی کو نہیں بتاتی یہ وہ داستاں ہے جو انکھیں بیاں کرتیں الفاظ ساتھ نہیں دیتے اس کا ہر انداز الگ اس کا ہر بیاں دوسرے سے جدا اس کا درد انسو بن کر بہہ سکتا یا لبوں پر مسکراہٹ بن کر بکھر سکتا پر کچھ لمحوں کے لیے یہ ہمیشہ کسی کی نہیں رہتی اس کا حاصل اگر لا حاصل سے خوبصورت تو اس کا لا حاصل انسان کو ان جذبوں سے اشنا کرواتا جن ہر لب اپنی مہر ثبت کرتے
     ہر انسان کو دوسرے سے محبت کی تلاش پر اے انساں تجھے صرف محبت نہیں چاہیے تجھے وہ محبت چاہیے جو تجھے تجھ سمیت قبول کرے جو تجھے تیرےاندا سے چاہے جب جس لمحے تجھے جس کی ضرورت وہ لمحہ چاہتا ہے تو بھٹک رہا ہے تو صحرا کے ویرانوں میں سمندر کی ہر لہر کے ساتھ کنارے کی طرف بھاگ رہا ہے تو بھنور کا ڈر ہے تجھے اے انسان اس درد کی دنیا میں ڈوب کر دیکھ تو سہی کیا کیا راز پنہاں ہیں اس درد کی دنیا میں
       ہر لمحے اس ہر پل اک امید انکھوں میں لیے انسان ان راہوں پر چلتا جس پر اس درد کو قرار میسر ہو کتنا خود کو ارزاں کر رہا اپنی ہی تسکیں کے لیے اپنی قیمت دوسرے سے لگوا رہا اے انساں تیری قیمت تیرا اپنا.وجود ہی بتائے گا تیری قیمت تیرا بنانے والا لگا چکا مت دے ترازو دوسرے کے ہاتھ میں جو تجھے ہر نظر سے تول رہا بس انسان کو وہی چاہیے جو اسے حاصل نہیں چاہے قیمت اس کی ذات ہی کیوں نہ ہو پھیلائے بیٹھا ہے یہ جھولی کہ کب کون اس کی جھولی میں اس کی خواہشوں کے سکے ڈالے
         ہر در پر دستک دینے والے اے نادان اگر تجھے محبت مل گئی تو مجھ سے ضرور ملوانا بتانا کہ کوئی تیرا پتہ پوچھ رہا تھا تیرا ٹھکانہ کہاں ہے تیری قیمت کیا ہے ان سوالوں کے جوابوں کی تلاش ہے مجھے بہت انتظار اس لمحے کا جب کوئی یہ بتائے کہ محبت کو اپنا انجام مل گیا یہ بغیر قیمت ادا کیے کسی کی ہو گئی اور اسے ہمیشہ کے لیے ٹھکانہ مل گیا
         یہاں تو ہر انساں اپنی ہی داستاں بیاں کر رہا کسی میں اتنی وسعت نہیں کہ دوسرے کو پناہ مل سکے بنانے والے نے صرف اک دروازہ رکھا جو انساں سے ہو کر عشق الہی کی طرف کھلتا جو لمحوں کا ساتھی وہ اس دروازے میں رک جاتا اور جو دائمی خوشی چاہتا وہ اس دروازے سے گزر جاتا
       بس تجھے اس دروازے سے گزرنا ہے اے انساں راہ میں بہت در ا گئے کچھ لمحوں کے لیے وقت رک بھی گیا پر تیری اپنی ذات تجھے پناہ نہ دے سکی انسان کی محبت میں وہ وسعت نہیں جو ایک انساں کو مکمل کر سکے وہ اس کو اور پیاس دے کر کسی اور کہ در پر اواز لگاتی بھٹک رہا ہے اج کا انساں جس دن اپنی کہانی کا انجام اپنے لکھنے والے کے ہاتھ سونپ دے گا اس دن محبت اس کہ در پر دستک دے گی اس انداز سے جس طرح اس نے چاہا تھا
  محبت کے ہیں خریدار بہت تم عشق کی بات کرتے ہو
ہم اپنی قیمت نہ لگا سکے تم کس کی بات کرتے ہو
ہم نے دیکھی ہے چاہت گلیوں میں رسوا ہوتے ہوے
تم کس وفا کی بات کرتے ہو.

Rabta

چھٹی گزارنے ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮔﯿﺎ
ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻭﺍﻟﺪ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﮐﻤﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﺳﮯ ﻣﻠﻨﮯ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺧﻼﻑ ﺗﻮﻗﻊ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺎﺭﭦ ﻓﻮﻥ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻭﭨﺲ ﺍﯾﭗ ﭘﮧ ﻣﺴﯿﺞ ﻟﮑﮫ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﯾﮧ ﺻﻮﺭﺗﺤﺎﻝ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﻧﮧ ﺻﺮﻑ ﻧﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﺑﻠﮑﮧ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﻦ ﺑﮭﯽ۔ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮨﻮﮐﺮ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺑّﺎﺟﯽ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﺒﺪﯾﻠﯽ ﻭﺍﻗﻌﯽ ﺁﮔﺌﯽ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﻭﭨﺲ ﺍﯾﭗ ﭘﺮ.ﺍﺑﺎ ﺟﯽ ﻣﺴﮑﺮﺍﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ “ﯾﮧ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﮭﯽ ﺑﺮﯼ ﭼﯿﺰ ﻧﮩﯿﮟ۔" ﺁﭖ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ" :ﺍﯾﮏ ﻧﮑﺘﮧ ﺑﮍﯼ ﺁﺳﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻣﻮﺑﺎﺋﻞ ﻧﮯ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﻮ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﺳﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ ﭘﺎﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔" ﻣﯿﺮﯼ ﺣﯿﺮﺕ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﻮﮔﯿﺎ۔ ﺍﯾﺴﺎ ﺑﮭﻼ ﮐﻮﻥ ﺳﺎ ﻧﮑﺘﮧ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﻮ ﺍﺑّﺎﺟﯽ ﮐﻮ ﺳﻤﺎﺭﭦ ﻓﻮﻥ ﺳﮯ ﺳﻤﺠﮫ ﺁﯾﺎ۔ ﺩﺭﺧﻮﺍﺳﺖ ﮐﯽ ﮐﮧ ﺗﻔﺼﯿﻼﺕ ﺑﯿﺎﻥ ﻓﺮﻣﺎﺋﯿﮟ ﺗﺎﮐﮧ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﻣﺴﺘﻔﯿﺪ ﮨﻮﺳﮑﯿﮟ۔ ﺍﺑّﺎﺟﯽ ﺑﻮﻟﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺩﺱ ﺑﺎﺭﮦ ﺩﻥ ﺳﮯ ﺩﻭﺳﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻭﭨﺲ ﺍﯾﭗ ﭘﮧ ﺭﺍﺑﻄﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮞ۔ ﺟﻮ ﺩﻭﺳﺖ ﺍﯾﮏ ﺩﻭ ﺩﻥ ﺭﺍﺑﻄﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﻐﺎﻣﺎﺕ ﺑﮩﺖ ﻧﯿﭽﮯ ﭼﻠﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺗﻨﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﮨﺎﺗﮫ ﺗﮭﮏ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺳﮑﺮﻭﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺭﺍﺑﻄﮯ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﻟﺴﭧ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﻥ ﺳﯽ ﺑﮍﯼ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ۔ ﯾﮧ ﺗﻮ ﮨﻤﯿﮟ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﭘﮩﻠﮯ ﭘﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﺑّﺎ ﺟﯽ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ، ﺗﻢ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺕ ﭘﮧ ﻏﻮﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ۔ ﮨﻢ ﺳﺐ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺭﺏ ﮨﮯ۔ ﺟﺐ ﮨﻢ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺭﺍﺑﻄﮯ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﺱ ﮐﻮ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﺱ ﺳﮯ ﻣﺎﻧﮕﺘﮯ ﺭﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻟﺴﭧ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻧﺎﻡ ﺍﻭﭘﺮ ﮨﯽ ﺍﻭﭘﺮ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﮨﻢ ﺍﺱ ﺳﮯ ﻏﺎﻓﻞ ﮨﻮﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﺴﭧ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﺍ ﻧﺎﻡ ﺑﮩﺖ ﻧﯿﭽﮯ ﭼﻼ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺑﺲ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﯽ ﻧﮑﺘﮧ ﺳﻤﺠﮭﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻟﺴﭧ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﻡ ﺍﻭﭘﺮ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻭﻗﺘﺎً ﻓﻮﻗﺘﺎً ﺍﺳﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ......!!!!