Monday, October 22, 2018

Kuch yadden

آج بیٹھے بٹھائے کیوں یاد آگئے!

📖  غالباً1995 کی بات ہے. میرے ایک  دوست نے مجھے ایک عظیم خوشخبری سنائی کہ 3.5 ایم بی کی ہارڈ ڈسک مارکیٹ میں آگئی ہے 😲

مجھے یاد ہے ہم سب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں۔

کیونکہ!  آج 100 جی بی والی ڈسک بھی چھوٹی لگتی ہے. وہ *پینٹیم فور جو سٹیٹس سمبل سمجھا جاتا تھا, آج کسی کو یاد ہی نہیں.

🖥  حالانکہ صرف چھ سات سال  پہلے ہم میں سے اکثر کے پاس ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر تھے, آئے دن پاور فیل ہو جاتی تھی‘ سی ڈی روم خراب ہو جاتی تھی. اُن دنوں کمپیوٹر ٹھیک کرنے والے ’انجینئرز‘ کہلاتے تھے‘ آج کل مکینک کہلاتے ہیں.

............ تھوڑا اور پیچھے چلے جائیں تو فلاپی ڈسک کے بغیر کام نہیں چلتا تھا‘ فلاپی اپنی مرضی کی مالک ہوتی تھی‘ چل گئی تو چل گئی ورنہ میز پر کھٹکاتے رہیں کہ شائد کام بن جائے.

👀  یہ سب کچھ ہم سب نے اپنی آنکھوں کے سامنے تیزی سے بدلتے ہوئے دیکھا.

🍂 موبل آئل سے موبائل تک کے سفر میں ہم قدیم سے جدید ہوگئے.
🍂  لباس سے کھانے تک ہر چیز بدل گئی لیکن نہیں بدلا تو میتھی والے پراٹھے کاسواد نہیں بدلا.

🍂  شہروں میں زنگر برگر اور فاسٹ فوڈ کی اتنی دوکانیں کھل گئی ہیں کہ آپ اگر مکئی کی روٹی اور ساگ کھانا چاہیں تو ڈھونڈتے رہ جائیں.

🍸  گھروں میں بننے والی لسی اب ریڑھیوں پر آگئی ہے.

👎🏻  شائد ہی کوئی ایسا گھر ہو جس میں سب لوگ ایک ہی وقت میں دستر خوان یا ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کرکھانا کھاتے ہوں. فریج میں ہر چیز پڑی ہے‘ جس کا جب جی چاہتا ہے نکالتا ہے اور گرم کر کے کھا لیتا ہے. البتہ باہر جا کر کھانا ہو تو یہ روایت اب بھی برقرار ہے.

👈🏻  جن گھروں کے دروازے رات آٹھ بجے  کے بعد بند ہو جایا کرتے تھے, وہ اب رات گیارہ بجے کے بعد کھلتے ہیں اورپوری فیملی ڈنر کھا کر رات ایک بجے واپس پہنچتی ہے.

👎🏻  پورے دن کے لیے واٹر کولر میں دس روپے کی برف ڈالنے کی اب ضرورت نہیں رہی. اب ہر گھر میں فریج ہے‘ فریزر ہے لیکن برف پھر بھی استعمال نہیں ہوتی کیونکہ پانی ٹھنڈا ہوتاہے.

🍂  فریج آیا تو ’چھِکو‘ بھی گیا.

🍂  اب تندور پر روٹیاں لگوانے کے لیے پیڑے گھر سے بنا کر نہیں بھیجے جاتے.

🍂  اب لنڈے کی پرانی پینٹ سے بچوں کے بستے نہیں سلتے‘ مارکیٹ میں ایک سے ایک ڈیزائن والا سکول بیگ دستیاب ہے.

👎🏻  بچے اب ماں باپ کو امی ابو سے زیادہ ’یار‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں.

💡  بلب انرجی سیور میں بدل گئے اور انرجی سیور ایل ای ڈی میں.

👎🏻  چھت پر سونا خواب بن گیا ہے, لہذا اب گھروں میں چارپائیاں بھی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں.

ڈبل بیڈ ہیں اور ان پر بچھے موٹے موٹے گدے. مسہری اور پلنگ گھر کی سیٹنگ سے میچ نہیں کرتے.

✨  اب بچے سائیکل سیکھنے کے لیے قینچی نہیں چلاتے, کیونکہ ہر عمر کے بچے کے سائز کا سائیکل آچکا ہے.

✨  جن سڑکوں پر تانگے دھول اڑاتے تھے وہاں اب گاڑیاں دھواں اڑاتی ہیں.

💭  کیا زمانہ تھا جب گھروں کے دروازے سارا دن کھلے رہتے تھے, بس آگے ایک بڑی سی چادر کا پردہ لٹکا ہوا ہوتا تھا.

👈🏻  اب تو دن کے وقت بھی بیل ہو تو پہلے سی سی ٹی وی کیمرے میں دیکھنا پڑتا ہے.

☎  شہر سے باہر کال ملانا ہوتی تھی تو لینڈ لائن فون پر پہلے کال بک کروانا پڑتی تھی اور پھر مستقل وہیں موجود رہنا پڑتا تھا. گھنٹے بعد کال ملتی تھی اور کئی دفعہ درمیان میں آپریٹر بھی مداخلت کر دیتا تھا کہ تین منٹ ہونے والے ہیں.

⌚  سعودیہ وغیرہ سے کوئی عزیز پاکستان آتا تھا, تو گفٹ کے طور پر ’گھڑیاں‘ ضرور  لے کر آتا تھا.

🌾  واک مین بھی ختم ہوگئے‘ پانی کے ٹب میں موم بتی سے چلنے والی کشتی بھی نہیں رہی.

❄  پانی کی ٹینکیوں کا رواج چلا تو گھر کا ہینڈ پمپ بھی ’بوکی‘ سمیت رخصت ہوا.

👎🏻  واش بیسن آیا تو ’ کھُرے‘ بنانے کی بھی ضرورت نہیں رہی.

☕  چائے پیالی سے نکل کر کپ میں قید ہوگئی.

🚬  سگریٹ آیا تو حقے کا خاتمہ کر گیا‘ اب شائد ہی کسی گھر میں کوئی حقہ تازہ ہوتا ہو.

✨  میں نے ہمیشہ ماں جی کو پرانے کپڑوں اور ٹاکیوں کو اکھٹا کرکے تکیے میں بھرتے دیکھا.

📖  تب ایسا ہی ہوتا تھا. اب نہیں ہوتا‘ اب مختلف میٹریلز کے بنے بنائے تکیے ملتے ہیں اور پسند بھی کیے جاتے ہیں.

👚  پہلے مائیں خود بچوں کے کپڑے سیتی تھیں‘ بازار سے اون کے گولے منگوا کر سارا دن جرسیاں بنتی تھیں‘ اب نہیں... بالکل نہیں‘ ایک سے ایک جرسی بازار میں موجود ہے‘ سستی بھی‘ مہنگی بھی۔
📜  پہلے کسی کو اُستاد بنایا جاتا تھا‘ اب اُستاد مانا جاتا ہے.

📺  پہلے سب مل کر ٹی وی دیکھتے تھے‘ اب اگر گھر میں ایک ٹی وی بھی ہے تو اُس کے دیکھنے والوں کے اوقات مختلف ہیں. دن میں خواتین Repeat ٹیلی کاسٹ میں ڈرامے دیکھ لیتی ہیں‘ شام کو مرد نیوز چینل سے دل بہلا لیتے ہیں.

📰   معصومیت بھرے پرانے دور میں الماریوں میں اخبارات بھی انگریزی بچھائے جاتے تھے کہ ان میں مقدس کتابوں کے حوالے نہیں ہوتے.

💔  چھوٹی سے چھوٹی کوتاہی پر بھی کوئی نہ کوئی سنا سنایا خوف آڑے آجاتا تھا.

♨  زمین پر نمک یا مرچیں گر جاتی تھیں تو ہوش و حواس اڑ جاتے تھے کہ قیامت والے دن آنکھوں سے اُٹھانی پڑیں گی.

💰  گداگروں کو پورا محلہ جانتا تھا اور گھروں میں ان کے لیے خصوصی طور پر کھلے پیسے رکھے جاتے تھے.

✉  گھروں میں خط آتے تھے اور جو لوگ پڑھنا نہیں جانتے تھے وہ ڈاکئے سے خط پڑھواتے تھے. ڈاکیا تو گویا گھر کا ایک فرد شمار ہوتا تھا ‘ خط لکھ بھی دیتا تھا‘ پڑھ بھی دیتا تھا اور لسی پانی پی کر سائیکل پر یہ جا وہ جا.

💌  امتحانات کا نتیجہ آنا ہوتا تھا تو ’نصر من اللہ وفتح قریب‘ پڑھ کر گھر سے نکلتے تھے اور خوشی خوشی پاس ہوکر آجاتے تھے.

👆🏻  یہ وہ دور تھا جب لوگ کسی کی بات سمجھ کر ’’اوکے‘‘ نہیں ’’ٹھیک ہے‘‘ کہا کرتے تھے.

✨  موت والے گھر میں سب محلے دار سچے دل سے روتے تھے اور خوشی والے گھر میں حقیقی قہقہے لگاتے تھے.

🍂  ہر ہمسایہ اپنے گھر سے سالن کی ایک پلیٹ ساتھ والوں کو بھیجتا تھا اور اُدھر سے بھی پلیٹ خالی نہیں آتی تھی.

🍨  میٹھے کی تین ہی اقسام تھیں... حلوہ، زردہ چاول اور کھیر.

🍦  آئس کریم دُکانوں سے نہیں لکڑی کی بنی ریڑھیوں سے ملتی تھی جو میوزک نہیں بجاتی تھیں.

❄  گلی گلی میں سائیکل کے مکینک موجود تھے جہاں کوئی نہ کوئی محلے دار قمیص کا کونا منہ میں دبائے ‘ پمپ سے سائیکل میں ہوا بھرتا نظر آتا تھا.

✨  نیاز بٹتی تھی تو سب سے پہلا حق بچوں کا ہوتا تھا.

🌾   ہر دوسرے دن کسی نہ کسی    گلی کے کونے سے آواز آجاتی ’’کڑیو‘ منڈیو‘ شے ونڈی دی لے جاؤ‘۔ اور آن کی آن میں بچوں کا جم غفیر جمع ہوجاتا اور کئی آوازیں سنائی دیتیں ’’میرے بھائی دا حصہ وی دے دیو‘.

🥡  دودھ کے پیکٹ اور دُکانیں تو بہت بعد میں وجود میں آئیں‘ پہلے تو لوگ ’بھانے‘ سے دودھ لینے جاتے تھے.

💞  گفتگو ہی گفتگو تھی‘ باتیں ہی باتیں تھیں‘ وقت ہی وقت تھا.
♻  گلیوں میں چارپائیاں بچھی ہوئی ہیں‘ محلے کے بابے حقے پی رہے ہیں اور پرانے بزرگوں کے واقعات بیان ہورہے ہیں.

📺  جن کے گھر وں میں ٹی وی آچکا تھا انہوں نے اپنے دروازے محلے کے بچوں کے لیے ہمیشہ کھلے رکھے.

🎈 مٹی کا لیپ کی ہوئی چھت کے نیچے چلتا ہوا پنکھا سخت گرمی میں بھی ٹھنڈی ہوا دیتا تھا.
لیکن... پھر اچانک سب کچھ بدل گیا.

💔💘  ہم قدیم سے جدید ہوگئے.

👎🏻  اب باورچی خانہ سیڑھیوں کے نیچے نہیں ہوتا.

📌  کھانا بیٹھ کر نہیں پکایا جاتا. دستر خوان شائد ہی کوئی استعمال کرتا ہو.

📌  منجن سے ٹوتھ پیسٹ تک کے سفر میں ہم نے ہر چیز بہتر سے بہتر کرلی ہے

لیکن!
            پتا نہیں کیوں اس قدر سہولتوں کے باوجود
ہمیں...
گھر میں
ایک ایسا ڈبہ
ضرور رکھنا پڑتا ہے
جس میں
ڈپریشن‘ سردرد‘
بلڈ پریشر‘ نیند اور وٹامنز
کی گولیاں
ہر وقت موجود ہوں۔۔۔!!!

بشکریہ وٹس اپ

Sunday, October 14, 2018

Apni Pehchn

ایک دانا آدمی کی گاڑی ایک گاوں کے قریب خراب ہو گئی اس نے  سوچا کہ گاوں سے کسی سے مدد لیتا ہوں
وہ جیسے ہی گاوں میں داخل ہوا تو  اس نے دیکھا ایک بوڑھا شخص چارپائی پر بیٹھا ہے اور اس کے قریب مرغیاں دانہ چگ رہی ہیں ان مرغیوں میں ایک باز کا بچہ بھی ہے جو مرغیوں کی طرح دانے چگ رہا ہے وہ حیران ہوا اور اپنی گاڑی کو بھول کر
اس بوڑھے شخص سے کہنے لگا کہ یہ کیسے خلاف قدرت ممکن ہوا کہ ایک باز کا بچہ زمین پر مرغیوں کے ساتھ دانے چگ رہا ہے
تو اس بوڑھےشخص نے کہا دراصل یہ باز کا بچہ صرف ایک دن کا تھا جب یہ پہاڑ پر مجھے گرا ہوا ملا میں اسے اٹھا لایا یہ زخمی تھا میں نے اس کو مرہم پٹی کرکے اس کو مرغی کے بچوں کے ساتھ رکھ دیا جب اس نےپہلی بار آنکھیں کھولیں تو اس نے خود کو مرغی کے چوزوں کے درمیان پایا یہ خود کو مرغی کا چوزہ سمجھنے لگا اور دوسرے چوزوں کے ساتھ ساتھ اس نے بھی دانہ چگنا سیکھ لیا
اس دانا شخص نے گاوں والے سے درخواست کی کہ یہ باز کا بچہ مجھے دے دیں تحفے کے طور پر یا اس کی قیمت لے لیں میں اس پر تحقیق کرنا چاہتا ہوں
اس گاوں والے نے باز کا بچہ اس دانا شخص کو تحفے کے طور پر دے دیا
یہ اپنی گاڑی ٹھیک کروا کر اپنے گھر آ گیا
وہ روزانہ باز کے بچے کو چھت سے نیچے پھینک دیا کرتا مگر باز کا بچہ مرغی کی طرح اپنے پروں کو سکیڑ کر گردن اس میں چھپا لیتا
وہ روزانہ بلاناغہ باز کے بچے کو اپنے سامنے ٹیبل پر بیٹھاتا اور اس کہتا کہہ تو باز کا بچہ ہے مرغی کا نہیں اپنی پہچان کر
اسی طرح اس نے کئی دن تک اردو پنجابی سندھی سرائیکی پشتو ہر زبان میں اس باز کے بچے کو کہا کہ تو باز کا بچہ ہے مرغی کا نہیں اپنی پہچان کر
اپنے آپ کو پہچاننے کی کوشش کرو
آخر کار وہ دانا شخص ایک دن باز کے بچے کو لے کر ایک بلند ترین پہاڑ پر چلا گیا اور اسے کہنے لگا کہہ خود کو پہچاننے کی کوشش کرو تم باز کے بچے ہو اور اس شخص نے یہ کہہ کر باز کے بچے کو پہاڑ کی بلندی سے نیچے پھینک دیا
باز کا بچہ ڈر گیا اور اس نے مرغی کی طرح اپنی گردن کو جھکا کر پروں کو سکیڑ لیا اور آنکھیں بند کر لیں تھوڑی دیر بعد اس نے آنکھیں کھولیں تو اس نے دیکھا کہ زمین تو ابھی بہت دور ہے تو اس نے اپنے پر پھڑ پھڑائے اور اڑنے کی کوشش کرنے لگا
جیسے کوئی آپ کو دریا میں دھکا دے دے تو آپ تیرنا نہیں بھی آتا تو بھی آپ ہاتھ پاؤں ماریں گے
تھوڑی ہی دیر میں وہ اپنے آپ کو بیلنس کرنے لگا کیونکہ باز میں اڑنے صلاحیت خدا نے رکھی ہوتی ہے
تھوڑی ہی دیر میں وہ اونچا اڑنے لگا
وہ خوشی سے چیخنے لگا اور اوپر اور اوپر جانے لگا
کچھ ہی دیر میں وہ اس دانا شخص سے بھی اوپر نکل گیا اور نیچے نگاہیں کرکے اس کا احسان مند ہونے لگا
تو دانا شخص نے کہا اے باز میں نے تجھے تیری شناخت دی ہے اپنے پاس سے کچھ نہیں دیا
یہ کمال صلاحیتیں تیرے اندر موجود تھیں مگر تو بے خبر تھا
یہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہے
ہماری ایک خاص شناخت ہے
ہم ایک خاص امت کے ارکان ہیں
 ہم ایک ایٹمی ملک کے شہری ہیں
ہمارے اندر اللہ رب العزت نے بے پناہ صلاحیتیں رکھی ہیں
مگر پرابلم یہ ہے کہ ہمارے ارد گرد بے شمار مرغیاں ہیں جن میں ہمارے ٹی وی چینل اور اخبارات بھی شامل ہیں
جو مسلسل ہم کو بتاتے ہیں کہ ہم باز کے بچے نہیں مرغی کے بچے ہیں
جو مسلسل بتاتے ہیں کہ تم سپر پاور نہیں ہو سپر پاور کوئی اور ہے
جو مسلسل بتاتے ہیں کہ تم بہادر اور طاقتور نہیں ہو بلکہ بزدل اور کمزور ہو
تمھاری تو قوم ہی ایسی ہے
تم دہشتگرد ہو تم لوگ آگے نہیں بڑھ سکتے
کامیابی کی شرط یہ ہے کہ ہم خود کو پہچاننے کی کوشش کریں تاکہ ہم ایک بہترین امت اور بہترین قوم بن کر اس ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔

Saturday, October 6, 2018

گلزار صاحب 👉

یار سمپورن سنگھ ، تجھے یہ کیا سوجھی کہ بارڈر پار کرتے ہی تو جہلم کے دینہ چلا گیا۔نہ صرف چلا گیا بلکہ جنم بھومی دیکھ کر جذباتی سا بھی ہوگیا۔ رہا نا کیس کٹانے کے بعد بھی سردار کا سردار ۔۔۔ٹھیک ہے تو دینے کے کالڑا گاؤں میں پیدا ہوگیا تھا پر تو ہے تو انڈین ۔جیسے میرا باپ ٹونک راجھستان میں پیدا ہوگیا تھا پر تھا تو وہ پاکستانی ۔۔۔جہاں تو نے ستتر میں سے ستر سال دینہ جائے بغیر گزار دیے وہاں صرف پانچ سات سال کی تو اور بات تھی۔
ویسے تو دینے سے نکلا کب تھا ؟ اس بڑھاپے میں بھی جب تو ممبئی کے باندرہ جمخانے میں ہر صبح ٹینس کی بال اچھالتا ہے سچی سچی بتا نیٹ کے دوسری طرف دینہ کے علاوہ اور کیا ہوتا ہے ؟؟؟؟
جھلا کی لبدا پھرے
یارو او گھر کیہڑا
لوکاں توں پچھدا پھرے
جھلا ہسدا پھرے ، جھلا روندا پھرے
جھلا گلی گلی رلدا پھرے۔
مسافر ہوں میں یارو
نا گھر ہے نا ٹھکانہ
مجھے چلتے جانا ہے بس ۔۔۔
چلتے جانا۔۔۔۔۔
او ماجھی رے ۔۔۔۔
اپنا کنارہ
ندیا کی دھارا ہے۔۔۔
تجھ سے ناراض نہیں ہوں زندگی
حیران ہوں میں ۔۔پریشان ہوں میں۔۔
قطرہ قطرہ ملتی ہے
قطرہ قطرہ جینے دو
زندگی ہے پینے دو
پیاسی ہوں میں پیاسی رہنے دو۔۔۔۔
اوئے سمپورن مجھے ایک بات تو بتا ۔۔۔۔تو نے آخر اتنے برسوں میں سیکھا کیا ؟ اتنا تیرا نام ہے ۔۔۔کیسی بانکی من موہنی تیری شکل ہے۔۔۔ایک سو بیس فلموں کے تو نے گانے، انیس فلموں کے ڈائیلاگ اور اتنی ہی فلموں کی کہانیاں لکھیں۔ بائیس فلموں کو ڈائریکٹ کیا ۔دو فلمیں جیب سے بنائیں ، مرزا غالب سمیت تین ٹی وی سیریلز پیدا کئے ، بارہ میوزک البم تخلیق کیے ۔اکتیس فلم فئیر ایوارڈز ، ایک آسکر ، ایک گریمی اور ایک پدم بھوشن سینے پہ ٹانک لیا ۔تین شعری مجموعے اور ایک کہانیوں کا مجموعہ چھاپ مارا۔ایک ذہین بیٹی کو دنیا میں لایا۔
’اپنے آپ راتوں کو سیڑھیاں دھڑکتی ہیں ، چونکتے ہیں دروازے‘ ۔۔۔جیسی طلسماتی لائنیں نغمے میں ڈھال دیں۔۔۔پر نہیں سیکھی تو زندگی گذارنے کی مصلحتی الف ب نہیں سیکھی۔۔۔
تجھے اب دینے جانے کی آخر کیا ضرورت پڑ گئی تھی ؟ وہاں کیا دھرا ہے ؟ ہوگیا نا ایک دفعہ پیدا تو ، ہوگئی ایک دفعہ پارٹیشن ، دھکیل دیا گیا تیرے جیسے لاکھوں خاندانوں کو ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر ۔اب کیوں اپنے اور دوسروں کے زخموں کو کریدنے کے شوق میں مرا جارہا ہے۔۔۔۔
سات دن تجھے رہنا تھا پاکستان میں۔۔رہتا لاہور کے ہیپی گو لکیوں کے درمیان اور کراچی کے ادب میلے میں اور پھر بند گھروں میں عیاشی کے ساتھ ۔۔دیتا اپنے مرضی کے چینلوں کو انٹرویو۔۔۔کرتا میٹھی میٹھی ملاؤنی باتیں۔۔۔اور سوار ہوجاتا جہاز میں نم آلود آنکھوں کے ساتھ یہاں کی آْؤ بھگت کی تعریفیں کرتے کرتے۔۔
جب تو نے ان لائنوں والی نظم بھی لکھ دی تھی کہ
آنکھوں کو ویزا نہیں لگتا
بند آنکھوں سے روز سرحد پار چلا جاتا ہوں
سپنوں کی سرحد کوئی نہیں۔۔۔۔
تو اس کے بعد کھلی آنکھوں دینہ جانے کی کیا ضرورت پیش آگئی تھی؟
تیرا کیا خیال تھا کہ وہاں جو بچے تیرے ساتھ لکن میٹی کھیلتے تھے ان کی عمریں منجمد ہو چکی ہوں گی؟ وہ درخت جنہیں تیرا نام یاد تھا ان کی یاداشت اور بینائی آج بھی تازہ ہوگی؟ جس آنگن میں تو دوڑتا تھا اس کی اینٹوں کا رنگ ویسا ہی لال لال ہوگا ؟ جس کمرے کی دیواریں تیری سوتیلی ماں اور بہن بھائیوں کی ڈانٹ اور پیار سے تیرے باوا نے گوندھی تھیں ان کا پلستر وہیں کا وہیں جما ہوگا ؟؟۔۔۔۔۔
یار سردار جی تجھے اتنی سی بات پلے نہیں پڑی کہ جس جگہ کو چھوڑ دو اس کی طرف مت لوٹو ۔کہیں وہ تصویر بھی برباد نہ ہوجائے جو دل کے ڈرائنگ روم میں یاد کی کیل سے ٹنگی ہے۔
اب تو اچھا رہا۔۔۔۔دل کا دینہ بھی تیرے ہاتھ سے گیا ۔۔۔۔
سمپورن سنگھ ایک تو مجھے تیری آج تک سمجھ نہیں آئی ۔ایک طرف یہ مصرعہ لکھتا ہے کہ،
نظر میں رہتے ہو جب تم نظر نہیں آتے
اور پھر اس کے بالکل الٹ تو دینہ چلا گیا۔وہ بھی اپنی نظروں سے دیکھنے۔۔۔۔
پتہ ہے کیا؟ اب میں تجھے تھوڑا تھوڑا سمجھنے لگا ہوں ۔۔۔تو ہنسنے ، رونے ، چیخنے والا جھلا بالکل نہیں۔تو ایک اذیت پرست آدمی ہے۔۔۔تو وہاں اس لیے گیا تھا کہ غم و اندوہ ، ٹوٹ پھوٹ کا تازہ سٹاک مل جائے اور پھر تو اس خام مال سے باقی زندگی نغماتی و نثری بت تراشے۔۔۔یہ تم جیسے تخلیق کاروں کی بڑی پرانی ٹکنیک ہے۔۔۔۔
دیکھ اگر تو اپنی خود غرضی کی قربانی دے دیتا اور دینہ نا جاتا تو کتنے ہزار لوگ تجھے لاہور اور کراچی میں دیکھ کر ، سن کر اور سوچ کر گلزار ہوجاتے۔۔۔مگر تو نے ان کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔۔۔۔ اب تو کہہ رہا ہے کہ جلد پاکستان واپس آئے گا ۔۔۔۔۔یار سمپورن اپنی عمردیکھ اور اپنے وعدے دیکھ۔۔۔۔
اب جب کہ تو لوٹ گیا ہے ۔اب تو بتا دے تجھے دینہ جانے کا مشورہ دیا کس نے تھا؟؟؟؟
_____
وسعت اللہ خان