Saturday, September 22, 2018

محبت ♥ کی شادیاں.

محبت کی شادیاں عام طور پر چند ” ڈیٹس ” ، کچھ فلموں اور تھوڑے بہت تحفے تحائف کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔ لڑکیاں اور لڑکے سمجھتے ہیں کہ ہماری باقی زندگی بھی ویسے ہی گذرے گی جیسا فلموں میں دکھاتے ہیں ، لیکن فلموں میں کبھی شادی کے بعد کی کہانی دکھائی ہی نہیں جاتی ہے ۔ اس سے فلم فلاپ ہونے کا ڈر ہوتا ہے ۔ الیکٹرانک میڈیا نے گوٹھ گاؤں اور کچی بستیوں میں رہنے والی لڑکیوں تک کے دل میں ” شاہ رخ خان “جیسا آئیڈیل پیدا کر دیا ہے ۔
آپ ہماری جینے مرنے کی قسمیں کھانے والی نسل کی سچی محبت کا اندازہ اس بات سے کریں کہ 2017 میں 50000 خلع کے کیسسز آئے جن میں سے 30000 ” لو میرجز ” تھیں ۔
آپ حیران ہونگے صرف گجرانوالہ شہر میں 2005 سے 2008 تک طلاق کے 75000 مقدمات درج ہوئے ہیں ۔
آپ کراچی کی مثال لے لیں جہاں 2010 میں طلاق کے40410کیسسز رجسٹرڈ ہوئے ۔ 2015 میں صرف خلع کے 13433 سے زیادہ کیسسز نمٹائے گئے ۔
گھریلو زندگی کی تباہی میں سب سے بڑا عنصر ناشکری بھی ہے ۔ کم ہو یا زیادہ ، ملے یا نہ ملے یا کبھی کم ملے پھر بھی ہر حال میں اپنے شوہر کی شکر گزار رہیں ۔
سب سے بڑی تباہی اس واٹس ایپ اور فیس بک سوشل میڈیا نے مچائی ہے ۔
پہلے لڑکیاں غصے میں ہوتی تھیں یا ناراض ہوتی تھیں تو ان کے پاس اماں ابا اور دیگر لوگوں تک رسائی کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا تھا ۔شوہر شام میں گھر آتا ، بیوی کا ہاتھ تھام کر محبت کے چار جملے بولتا ، کبھی آئسکریم کھلانے لے جاتا اور کبھی ٹہلنے کے بہانے کچھ دیر کا ساتھ مل جاتا اور اس طرح دن بھر کا غصہ اور شکایات رفع ہوجایا کرتی تھیں ۔
لیکن ابھی ادھر غصہ آیا نہیں اور ادھر واٹس ایپ پر سارے گھر والوں تک پہنچا نہیں ۔
یہاں میڈم صاحبہ کا ” موڈ آف ” ہوا اور ادھر فیس بک پر اسٹیٹس اپ لوڈ ہو گیا ۔ اور اس کے بعد یہ سوشل میڈیا کا جادو وہ وہ گل کھلاتا ہے کہ پورے کا پورا خاندان تباہ و برباد ہوجاتا ہے یا نتیجہ خود کشیوں کی صورت میں نکلتا ہے ۔
مائیں لڑکیوں کو سمجھائیں کہ خدارا ! اپنے شوہر کا مقابلہ اپنے باپوں سے نہ کریں ۔ ہوسکتا ہے آپکا شوہر آپ کو وہ سب نہ دے سکے جو آپ کو باپ کے گھر میں میسر تھا ۔
لیکن یاد رکھیں آپ کے والد کی زندگی کے پچاس ، ساٹھ سال اس دشت کی سیاحی میں گذر چکے ہیں اور آپ کے شوہر نے ابھی اس دشت میں قدم رکھا ہے ۔ آپ کو سب ملے گا اور انشاء اللہ اپنی ماں سے زیادہ بہتر ملے گا اگر نہ بھی ملے تو بھی شکر گذاری کی عادت ڈالیں سکون اور اطمینان ضرور ملے گا ۔
بیویاں شوہروں کی اور شوہر بیویوں کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر تعریف کرنا اور درگذر کرنا سیکھیں ۔
زندگی میں معافی کو عادت بنالیں ۔
خدا کے لئیے باہر والوں سے زیادہ اپنے شوہر کے لئیے تیار ہونے اور رہنے کی عادت ڈالیں ۔ساری دنیا کو دکھانے کے لئیے تو خوب ” میک اپ” لیکن شوہر کے لئیے ” سر جھاڑ منہ پھاڑ ” ایسا نہ کریں ۔
جتنی دفعہ ممکن ہو محبت کا اظہار کریں کبھی تحفے تحائف دے کر بھی کیا کریں ۔
یاد رکھیں
مرد کی گھر میں وہی حیثیت ہے جو سربراہ حکومت کی ریاست میں ہوتی ہے ۔ اگر آپ ریاست کی بہتری کی بجائے ہر وقت سربراہ سے بغاوت پر آمادہ رہینگے تو ریاست کا قائم رہنا مشکل ہوجائیگا ۔ جس کو اللہ نے جو عزت اور مقام دیا ہے اس کو وہی عزت اور مقام دینا سیکھیں چاہے آپ مرد ہیں یا عورت ۔
ایک مثالی گھر ایک مثالی خاندان تشکیل دیتا ہے جو کہ ایک مثالی معاشرے کی پہچان ہوتی ہے۔
: آج عورت گوشت کی دکان لگتی ھے اور باھر کتے انتظار مین کھڑے ھین کہ۔۔۔۔
۔
آج عورت کے پھٹے کپڑے سے اسکی غربت کا احساس نہین ھوتا بلکہ جسم دیکھنے کی سوچ ھوتی ھے۔۔۔
۔
​اِسلام نے عَورت کو عِزَّت دِی ہے یا آج کے جَدِید و تَرَقِّى يافتہ مُعاشرے نے؟ آج اگر ایک پاؤ گوشت لیں تو شاپِنگ بیگ میں بَند کر کے لے جاتے ہیں، اور پَچاس کِلو کی عَورت بغیر پَردے کے بازاروں میں گُهومتی ہے. کیا یہی ہے آج كا جَدِيد مُعاشره کہ کهانا تو پاکِیزه ہو اور پَکانے والی چاہےجیسی بِهی ہو؟​
​جَدِيد مُعاشرے كا عَجِيب فَلسَفہ:​
​لوگ اپنی گاڑیوں کو تو ڈھانپ کر رکهتے ہیں تاکہ اُنہیں دُهول مِٹِّی سے بَچا سکیں، مگر اپنی عَورتوں کو بے پَرده گُهومنے دیتے ہیں چاہے اُن پر کِتنی ہِی گَندی نَظریں کِیوں نہ پَڑیں؟​
​دَورِ جَدِید کی جاہِلیَّت:​
​عَورت کی تَصاوِیر اِستِعمال کر کے چَهوٹى بڑی تمام کمپنِیاں اپنی تِجارت کو فَروغ دیتی ہیں، یہاں تک کہ شَيوِنگ كَرِيم میں بِهی اِس کی تَصاوِير ہوتی ہیں. فَرانس و اَمرِیکہ میں جِسم فَروشی کا شُمار نَفع بَخش تِجارت کے زُمرے میں آتا ہے. اُن لوگوں نے اِسلامی مُمالِک میں بِهی ڈَورے ڈال لِئے ہيں. مُسَلمان عَورت کو بِهی جَہَنَّم کی طرف لے جا رہے ہیں. چُنانچہ مُسَلمان عَورت تَہذِیبِ جَدِید کے نام پر بے پَردہ پِهرنے لگی ہے.​
​ماسٹر پَلان كے ذريعے نئى نَسل کو تَباه کِیا جا رہا ہے:​
​غَور کِیجِئے!​
​ہر اِشتِہار میں لڑکا لڑکی کے عِشق کی کہانی مِلے گی.​
​ذرا سوچِیئے!​
​- سَیون اَپ کے اِشتِہار میں مَحَبَّت کا کیا کام؟​
​- تَرَنگ چائے کے اِشتِہار میں گَلے لگنے اور ناچنے کا کیا کام؟​
​- موبائِل کے اِشتِہار میں لڑکے لڑکِیوں کی مَحَبَّت کا کیا کام؟​
​دیکِهيئے!​
​آج کوئی نوجوان اِس فحاشی سے بَچ نہیں پایا. سِکهایا جا رہا ہے کہ آپ بِهی شیطان کی پَیروی کریں، فحاشی کریں، مَوج کریں.​
​آج عَورت خُود اِتنی بے حِس ہو چُکی ہے کہ جو بِهی پَردے کی بات کرے اُس کے خِلاف سَڑکوں پر نِکل آتی ہے. جبكہ ایک ایک روپے کی ٹافِیوں، جُوتوں، حَتّٰى كہ مَردوں كى شَيو كرنے كے سامان تک کے ساتھ بِکنے پر کوئی اِحتِجاج نہیں کرتی، بلکہ اِسے رَوشَن خیالِی کی عَلامَت سمجهتی ہے.​
​لمحۂ شَرمِندگى:​
​آج ہر بِکنے والی چِیز کے ساتھ عَورت کی حَیاء اور مَرد کی غَیرت بِهی بِک رہی ہے.​
​نام نِہاد پَرده… صِرف فَيشن كيلِئے:​
​فِی زَمانہ بُرقَعہ اِتنا دِلكَش و دِلفَريب ہے کہ اُس کے اُوپر ايک اور بُرقَعہ اَوڑهنے کى ضُرُورت ہے.​
​”پَرده نَظَر کا ہوتا ہے.“​
​اِسی سوچ نے آدِهی قَوم کو بے پَرده کر دِیا ہے.​
​مَرد آنکهیں نِیچِی نہیں کرنا چاہتا، عَورت پَرده كرنے کو جہالت سمجهتی ہے… مگر دونوں کو مُعاشرے ميں عِزَّت و اِحتِرام کی تلاش ہے.​
​بے پَرده نَظَر آئِيں كَل جو چَند بِيبِياں…​
​اَكبؔر زَمِيں ميں غَيرَتِ قَومِى سے گَڑھ گيا.​
​پُوچها جو اُن سے آپ كا پَرده وه كيا ہُوا…؟​
​كہنے لگِيں كہ عَقل پَہ مَردوں كى پَڑ گيا.​
​(اَكبؔر اِلہٰ آبَادِى)​
​پَرده عَورت کے چہرے پر ہوتا ہے، اگر چہرے پر نہیں تو سمجھ لِیجِئے کہ عَقل پَہ پَڑا ہُوا ہے.​
​اگر جِسم کی نُمائِش کرنا ماڈَرن و تَرَقِّی یافتہ ہونے کی عَلامَت ہے تو پِهر جانور اِنسَانوں سے بہت زیاده ماڈَرن و تَرَقِّی یافتہ ہیں.​
​پہلے شَرم کی وجہ سے پَرده کِیا جاتا تها اور اَب پَرده کرتے ہُوئے شَرم آتی ہے.​
درخواست ہے کہ .......!
ہم سب خود بھی اس گمراہی سے بچیں اور دوسروں کو بھی گمراہ ہونے سے بچائیں۔
جزاک اللہ خیرا

Friday, September 21, 2018

اُردُو زُبان کا خون..!

اُردُو زُبان کا خون کیسے ہوا ؟
اور ذمہ دار کون ہے؟

یہ ہماری پیدائش سے کچھ ہی پہلے کی بات ہے جب مدرسہ کو اسکول بنا دیا گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔۔
لیکن ابھی تک انگریزی زبان کی اصطلاحات دورانِ تعلیم استعمال نہیں ہوتی تھیں۔ صرف  انگریزی کے چند الفاظ ہی  مستعمل تھے،
مثلا":
ہیڈ ماسٹر،
فِیس،
فیل،
پاس وغیرہ
"گنتی" ابھی "کونٹنگ" میں تبدیل نہیں ہوئی تھی۔ اور "پہاڑے" ابھی "ٹیبل" نہیں کہلائے تھے۔

    60 کی دھائی میں چھوٹے بچوں کو نام نہاد پڑھے لکھے  گھروں میں "خدا حافظ" کی جگہ "ٹاٹا"  سکھایا جاتا اور مہمانوں کے سامنے بڑے فخر سے معصوم بچوں سے "ٹاٹا" کہلوایا جاتا۔
  زمانہ آگے بڑھا، مزاج تبدیل ہونے لگے۔
عیسائی مشنری سکولوں کی دیکھا دیکھی کچھ نجی (پرائیوٹ) سکولوں نے انگلش میڈیم کی پیوند کاری شروع کی۔
سالانہ امتحانات کے موقع پر کچھ نجی (پرائیویٹ) سکولوں میں پیپر جبکہ سرکاری سکول میں پرچے ہوا کرتے تھے۔ پھر کہیں کہیں استاد کو سر کہا جانے لگا- اور پھر آہستہ آہستہ سارے اساتذہ ٹیچرز بن گئے۔
پھر عام بول چال میں غیر محسوس طریقے سے اردو کا جو زوال شروع ہوا وہ اب تو نہایت تیزی سے جاری ہے۔

اب تو یاد بھی نہیں کہ کب جماعت، کلاس میں تبدیل ہوگئی- اور جو ہم جماعت تھے وہ کب کلاس فیلوز بن گئے۔

ہمیں بخوبی یاد ہے کہ 50 اور 60 کی دھائی میں؛ اول، دوم، سوم، چہارم، پنجم، ششم، ہفتم، ہشتم، نہم اور دہم، جماعتیں ہوا کرتی تھیں، اور کمروں کے باہر لگی تختیوں پر اسی طرح لکھا ہوتا تھا۔
پھر ان کمروں نے کلاس روم کا لباس اوڑھ لیا-
اور فرسٹ سے ٹینتھ کلاس کی نیم پلیٹس لگ گئیں۔
تفریح کی جگہ ریسیس اور بریک کے الفاظ استعمال ہونے لگے۔

گرمیوں کی چھٹیوں اور سردیوں کی چھٹیوں کی جگہ سمر ویکیشن اور وِنٹر ویکیشن آگئیں۔
چھٹیوں کا کام چھٹیوں کا کام نہ رہا بلکہ ہولیڈے پریکٹس ورک ہو گیا ۔
پہلے پرچے شروع ہونے کی تاریخ آتی تھی اب پیپرز کی ڈیٹ شیٹ آنے لگی۔
امتحانات کی جگہ ایگزامز ہونے لگے-
ششماہی اور سالانہ امتحانات کی جگہ مڈٹرم اور فائینل ایگزامز کی اصطلاحات آگئیں-
اب طلباء امتحان دینے کیلیے امتحانی مرکز نہیں جاتے بلکہ سٹوڈنٹس ایگزام کیلیے ایگزامینیشن سینٹر جاتے ہیں۔
قلم،
دوات،
سیاہی،
تختی، اور
سلیٹ
جیسی اشیاء گویا میوزیم میں رکھ دی گئیں ان کی جگہ لَیڈ پنسل، جیل پین اور بال پین آگئے- کاپیوں پر نوٹ بکس کا لیبل ہوگیا-

نصاب کو کورس کہا جانے لگا
اور اس کورس کی ساری کتابیں بستہ کے بجائے بیگ میں رکھ دی گئیں۔
ریاضی کو میتھس کہا جانے لگا۔
اسلامیات اسلامک سٹڈی بن گئی- انگریزی کی کتاب انگلش بک بن گئی- اسی طرح طبیعیات، فزکس میں اور معاشیات، اکنامکس میں، سماجی علوم، سوشل سائنس میں تبدیل ہوگئے-

پہلے طلبہ پڑھائی کرتے تھے اب اسٹوڈنٹس سٹڈی کرنے لگے۔
پہاڑے یاد کرنے والوں کی اولادیں ٹیبل یاد کرنے لگیں۔
اساتذہ کیلیے میز اور کرسیاں لگانے والے، ٹیچرز کے لیے ٹیبل اور چئیرز لگانے لگے۔

داخلوں کی بجائے ایڈمشنز ہونے لگے۔.... اول، دوم، اور سوم آنے والے طلبہ؛ فرسٹ، سیکنڈ، اور تھرڈ آنے والے سٹوڈنٹ بن گئے۔
پہلے اچھی کارکردگی پر انعامات ملا کرتے تھے پھر پرائز ملنے لگے۔
بچے تالیاں پیٹنے کی جگہ چیئرز کرنے لگے۔
یہ سب کچھ سرکاری سکولوں میں ہوا ہے۔

باقی رہے پرائیویٹ سکول، تو ان کا پوچھیے ہی مت۔ ان کاروباری مراکز تعلیم کیلیے کچھ عرصہ پہلے ایک شعر کہا گیا تھا،

مکتب نہیں،  دکان ہے،  بیوپار ہے
مقصد یہاں علم نہیں، روزگار  ہے۔

اور تعلیمی اداروں کا رونا ہی کیوں رویا جائے، ہمارے گھروں میں بھی اردو کو یتیم اولاد کی طرح ایک کونے میں ڈال دیا گیا ہے۔

زنان خانہ اور مردانہ تو کب کے ختم ہو گئے۔ خواب گاہ کی البتہ موجودگی لازمی ہے تو اسے ہم نے بیڈ روم کا نام دے دیا۔

باورچی خانہ کچن بن گیا اور اس میں پڑے برتن کراکری کہلانے لگے۔
غسل خانہ پہلے باتھ روم ہوا پھر ترقی کر کے واش روم بن گیا۔
مہمان خانہ یا بیٹھک کو اب ڈرائنگ روم کہتے ہوئے فخر محسوس کیا جاتا ہے۔

مکانوں میں پہلی منزل کو گراونڈ فلور کا نام دے دیا گیا اور دوسری منزل کو فرسٹ فلور۔
دروازہ ڈور کہلایا جانے لگا، پہلے مہمانوں کی آمد پر گھنٹی بجتی تھی اب ڈور بیل بجنے لگی۔
کمرے روم بن گئے۔ کپڑے الماری کی بجائے کپبورڈ میں رکھے جانے لگے۔

"ابو جی" یا "ابا جان" جیسا پیارا اور ادب سے بھرپور لفظ دقیانوسی لگنے لگا، اور ہر طرف ڈیڈی، ڈیڈ، پاپا، پپّا، پاپے کی گردان لگ گئی حالانکہ پہلے تو پاپے(رس) صرف کھانے کے لئے ہوا کرتے تھے اور اب بھی کھائے ہی جاتے ہیں-
اسی طرح شہد کی طرح میٹھا لفظ "امی" یا امی جان  "ممی" اور مام میں تبدیل ہو گیا۔

سب سے زیادہ نقصان رشتوں کی پہچان کا ہوا۔
چچا، چچی، تایا، تائی، ماموں ممانی، پھوپھا، پھوپھی، خالو خالہ سب کے سب ایک غیر ادبی اور بے احترام سے لفظ "انکل اور آنٹی" میں تبدیل ہوگئے۔
بچوں کے لیے ریڑھی والے سے لے کر سگے رشتہ دار تک سب انکل بن گئے۔
یعنی محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔

ساری عورتیں آنٹیاں، چچا زاد،
ماموں زاد، خالہ زاد بہنیں اور بھائی سب کے سب کزنس میں تبدیل ہوگئے، نہ رشتے کی پہچان رہی اور نہ ہی جنس کی۔

نہ جانے ایک نام تبدیلی کے زد سے کیسے بچ گیا ۔ ۔ ۔ گھروں میں کام کرنے والی خواتین پہلے بھی ماسی کہلاتی تھیں اب بھی ماسی ہی ہیں۔

گھر اور سکول میں اتنی زیادہ تبدیلیوں کے بعد بازار انگریزی کی زد سے کیسے محفوظ رہتے۔
دکانیں شاپس میں تبدیل ہو گئیں اور ان پر گاہکوں کی بجائے کسٹمرز آنے لگے، آخر کیوں نہ ہوتا کہ دکان دار بھی تو سیلز مین بن گئے جس کی وجہ سے لوگوں نےخریداری چھوڑ دی اور شاپنگ کرنے لگے۔
سڑکیں روڈز بن گئیں۔
کپڑے کا بازار کلاتھ مارکیٹ بن گئی، یعنی کس ڈھب سے مذکر کو مونث بنادیا گیا۔
کریانے کی دکان نے جنرل اسٹور کا روپ دھار لیا،
نائی نے باربر بن کر حمام بند کردیا اور ہیئر کٹنگ سیلون کھول لیا۔

ایسے ماحول میں دفاتر بھلا کہاں بچتے۔ پہلے ہمارا دفتر ہوتا تھا جہاں مہینے کے مہینے تنخواہ ملا کرتی تھی، وہ اب آفس بن گیا اور منتھلی سیلری ملنے لگی ہے اور جو کبھی صاحب تھے وہ باس بن گئے ہیں،
بابو کلرک اور چپراسی پِیّن بن گئے۔
پہلے دفتر کے نظام الاوقات لکھے ہوتے تھے اب آفس ٹائمنگ کا بورڈ لگ گیا-

سود جیسے قبیح فعل کو انٹرسٹ کہا جانے لگا۔ طوائفیں آرٹسٹ بن گئیں
اور محبت کو 'لَوّ' کا نام دے کر محبت کی ساری چاشنی اور تقدس ہی چھین لیا گیا۔
صحافی رپورٹر بن گئے اور خبروں کی جگہ ہم نیوز سننے لگے۔

کس کس کا اور کہاں کہاں کا رونا رویا جائے۔

اردو زبان کے زوال کی صرف حکومت ہی ذمہ دار نہیں،  عام آدمی تک نے اس میں حتی المقدور حصہ لیا ہے-

اور دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہمیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ ہم نے اپنی خوبصورت زبان اردو کا حلیہ مغرب سے مرعوب ہو کر کیسے بگاڑ لیا ہے۔
وہ الفاظ جو اردو زبان میں پہلے سے موجود ہیں اور مستعمل بھی ہیں ان کو چھوڑ کر انگریزی زبان کے الفاظ کو استعمال کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں

وائے ناکامیِ متاع کارواں  جاتا    رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

ہم کہاں سے کہاں آگئے اورکہاں جارہے  ہیں؟
دوسروں کا کیا رونا روئیں، ہم خود ہی اس کے ذمہ دار ہیں. دوسرا کوئی نہیں۔
بہت سے اردو الفاظ کو ہم نے انگریزی قبرستان میں مکمل دفن کر دیا ہے اور مسلسل دفن کرتے جا رہے ہیں. اور روز بروز یہ عمل تیزتر ہوتا جا رہا ہے۔

روکیے، خدا را روکیے،
ارود کو مکمل زوال پزیر ہونے سے روکیے۔

اگر آپ مناسب سمجھیں تو قوم کو بیدار کرنے کی خاطر اس تحریر کو شیئر کریں.

ملاحظہ: قومیں اپنی قومی زبان  کو پروان چڑھا کر ہی ترقی کرتی ہیں۔ موجودہ زمانے کا یہی سکہ بند اصول ہے۔ جاپان اور چین اس کی زندہ مثال ہیں
#کاپی شدہ