Monday, January 14, 2019

Muhabbt

       کیوں تلاش ہے تجھے محبت کی محبت اپنے اسرار کسی کو نہیں بتاتی یہ وہ داستاں ہے جو انکھیں بیاں کرتیں الفاظ ساتھ نہیں دیتے اس کا ہر انداز الگ اس کا ہر بیاں دوسرے سے جدا اس کا درد انسو بن کر بہہ سکتا یا لبوں پر مسکراہٹ بن کر بکھر سکتا پر کچھ لمحوں کے لیے یہ ہمیشہ کسی کی نہیں رہتی اس کا حاصل اگر لا حاصل سے خوبصورت تو اس کا لا حاصل انسان کو ان جذبوں سے اشنا کرواتا جن ہر لب اپنی مہر ثبت کرتے
     ہر انسان کو دوسرے سے محبت کی تلاش پر اے انساں تجھے صرف محبت نہیں چاہیے تجھے وہ محبت چاہیے جو تجھے تجھ سمیت قبول کرے جو تجھے تیرےاندا سے چاہے جب جس لمحے تجھے جس کی ضرورت وہ لمحہ چاہتا ہے تو بھٹک رہا ہے تو صحرا کے ویرانوں میں سمندر کی ہر لہر کے ساتھ کنارے کی طرف بھاگ رہا ہے تو بھنور کا ڈر ہے تجھے اے انسان اس درد کی دنیا میں ڈوب کر دیکھ تو سہی کیا کیا راز پنہاں ہیں اس درد کی دنیا میں
       ہر لمحے اس ہر پل اک امید انکھوں میں لیے انسان ان راہوں پر چلتا جس پر اس درد کو قرار میسر ہو کتنا خود کو ارزاں کر رہا اپنی ہی تسکیں کے لیے اپنی قیمت دوسرے سے لگوا رہا اے انساں تیری قیمت تیرا اپنا.وجود ہی بتائے گا تیری قیمت تیرا بنانے والا لگا چکا مت دے ترازو دوسرے کے ہاتھ میں جو تجھے ہر نظر سے تول رہا بس انسان کو وہی چاہیے جو اسے حاصل نہیں چاہے قیمت اس کی ذات ہی کیوں نہ ہو پھیلائے بیٹھا ہے یہ جھولی کہ کب کون اس کی جھولی میں اس کی خواہشوں کے سکے ڈالے
         ہر در پر دستک دینے والے اے نادان اگر تجھے محبت مل گئی تو مجھ سے ضرور ملوانا بتانا کہ کوئی تیرا پتہ پوچھ رہا تھا تیرا ٹھکانہ کہاں ہے تیری قیمت کیا ہے ان سوالوں کے جوابوں کی تلاش ہے مجھے بہت انتظار اس لمحے کا جب کوئی یہ بتائے کہ محبت کو اپنا انجام مل گیا یہ بغیر قیمت ادا کیے کسی کی ہو گئی اور اسے ہمیشہ کے لیے ٹھکانہ مل گیا
         یہاں تو ہر انساں اپنی ہی داستاں بیاں کر رہا کسی میں اتنی وسعت نہیں کہ دوسرے کو پناہ مل سکے بنانے والے نے صرف اک دروازہ رکھا جو انساں سے ہو کر عشق الہی کی طرف کھلتا جو لمحوں کا ساتھی وہ اس دروازے میں رک جاتا اور جو دائمی خوشی چاہتا وہ اس دروازے سے گزر جاتا
       بس تجھے اس دروازے سے گزرنا ہے اے انساں راہ میں بہت در ا گئے کچھ لمحوں کے لیے وقت رک بھی گیا پر تیری اپنی ذات تجھے پناہ نہ دے سکی انسان کی محبت میں وہ وسعت نہیں جو ایک انساں کو مکمل کر سکے وہ اس کو اور پیاس دے کر کسی اور کہ در پر اواز لگاتی بھٹک رہا ہے اج کا انساں جس دن اپنی کہانی کا انجام اپنے لکھنے والے کے ہاتھ سونپ دے گا اس دن محبت اس کہ در پر دستک دے گی اس انداز سے جس طرح اس نے چاہا تھا
  محبت کے ہیں خریدار بہت تم عشق کی بات کرتے ہو
ہم اپنی قیمت نہ لگا سکے تم کس کی بات کرتے ہو
ہم نے دیکھی ہے چاہت گلیوں میں رسوا ہوتے ہوے
تم کس وفا کی بات کرتے ہو.

No comments:

Post a Comment