Friday, January 25, 2019

امربیل

عشق
امربیل
عشق کا لفظ "عشقہ" سے ماخوﺫ ہے جو اس بیل کا نام ہے جس کو عربی میں " لہلاب " اور ہندی میں " عشق پیچاں" اردو میں ( امربیل ) اور پشتو میں جس کو ( نیلا داری) کہتے ہیں یہ بیل جس درخت سے لپٹ جائے اس کو بے برگ و بار کر دیتی ہے پھر ﺫرد ہو جاتا ہے اور کچھ دنوں بعد بالکل خشک ہو جاتا ہے
اسی طرح جب عشق قلبِ عاشق میں پیدا ہو تو غیر محبوب قلب سے فنا خود عاشق کی ﺫات فنا اور معشوق ہی معشوق رہ جاتا ہے....

"  ہمیں تو حُکم مجاوری ھے ،،،،،،،،، !!!
مزارِ دل میں ہے کون مدفن ؟
یہ کس عروسہ کا مقبرہ ہے ؟
نہ کوئی کُتبہ ،،،،،،، نہ کوئی تختی ،،،،،،
نہ سنگِ مرمر کی سِل پہ لِکھا ھُوا،،،
محبّت کا کوئی شعر ،،،،

فقط سرہانے سے پائینتی تک
امر کی بیل اِک لپٹ گئی ھے ،،،،،،،،،

جو اِک زمانے سے کہہ رہی ہے

یہاں ٹھکانہ تھا عاشقی کا
یہ پیر خانہ تھا عاشقی کا

کسے خبر کہ
یہاں ہے مدفن
فقیر کوئی
اسیر کوئی
یا پھر ہے وارث
کی ھیر کوئی

مگر ہماری
مجال ہی کیا

یہاں جو بولے
زبان کھولیں !!

ہمارے لب تو
سِلے ھُوئے ہیں
نہ جانے کب سے
سِلے ھُوئے ہیں

    "ہمیں تو حُکم مجاوری ھے ،،،،،،،،، !
#اچک_شدہ

No comments:

Post a Comment